ایل این جی اسپاٹ مارکیٹ میں پاکستان کو سرد مہری کا سامنا

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2020
ریگولر سپلائی کرنے والوں میں سے ایک ٹرافگورا نے 33.94 فیصد برینٹ کی سب سے بلند پیشکش کی—فائل فوٹو: ڈان
ریگولر سپلائی کرنے والوں میں سے ایک ٹرافگورا نے 33.94 فیصد برینٹ کی سب سے بلند پیشکش کی—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: ملک میں گیس کے حصول کی کوششوں میں مصروف صارفین کے لیے ایک بڑا دھچکا یہ ہے کہ جنوری کے ابتدائی 15 روز کے لیے پاکستان مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے 3 میں سے ایک کارگو کی بھی بولی نہیں حاصل کرسکا اور بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کے تناظر میں تاخیری ٹینڈرز کی وجہ سے مہینے کے دوسرے نصف حصے کے لیے بھی مہنگی قیمتیں ملیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے 8 جنوری سے یکم فروری تک 6 کارگو پہنچانے کے لیے ٹینڈرز جاری کیے تھے۔

جس کے ردِ عمل میں کسی سپلائر نے یا تاجر نے 8 جنوری اور 18 جنوری تک کے ابتدائی 3 سلاٹس کے لیے بولی نہیں لگائی۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب سے پاکستان 5 سال قبل اسپاٹ مارکیٹ میں داخل ہوا ہے اسے کوئی بولی نہیں ملی۔

یہ بھی پڑھیں: اوگرا کی غلطی سے آر ایل این جی صارفین کو 350 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا

تاہم 4 جنوری کے لیے 2 بولیاں موصول ہوئیں جس میں قیمتیں دستیاب نہیں تھی اور اس سلاٹ کے لیے 17.32 فیصد برینٹ قیمت کی سب سے کم بولی حیرت انگیز طور پر پہلی مرتبہ بولی میں حصہ لینے والی قطر گیس کی جانب سے موصول ہوئی جو اسپاٹ مارکیٹ میں نہیں ہے۔

جنوری 26-27 کے پانچویں کارگو کے لیے بھی واحد بولی قطر گیس کی جانب سے آئی جس کی قیمت بھی 17.32 فیصد برینٹ کے لیے وہی تھی۔

سال 2015 میں ٹرمینل ٹیسٹنگ کے لیے خریدے گئے ایل این جی کے پہلے کارگو کے علاوہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سب سے کم بولی 17 ڈالر سے زائد ہے۔

29 جنوری سے یکم فروری کے چھٹے اور آخری کارگو کے لیے 6 بولیاں موصول ہوئیں جس میں سے ایک نااہل قرار پائی، 15.32 فیصد برینٹ کے لیے سب سے کم بولی ایک مرتبہ پھر قطر گیس کی جانب سے موصول ہوئی جبکہ دیگر تمام بولیاں 20.48 فیصد برینٹ سے زائد تھیں۔

علاوہ ازیں ریگولر سپلائی کرنے والوں میں سے ایک ٹرافگورا نے 33.94 فیصد برینٹ کی سب سے بلند پیشکش کی اور ان قیمتوں کی بھی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی پر میڈیا کا ایک حصہ دانستہ مخصوص تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے، ندیم بابر

بدقسمتی سے 17 فیصد برینٹ سے زائد کی ایل این جی قیمتیں دستیاب ہی نہیں اور ہائی اسپیڈ ڈیزل، خام تیل اور فرنس آئل سے بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔

اس کا مطلب بجلی گھروں کو ایل این جی کے بجائے فرنس آئل پر چلانا چاہیے کیوں کہ فرنس آئل مقامی ریفائنریز میں دستیاب ہے اور اس سے زرِ مبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔

قطر گیس کے ساتھ ہوئے طویل المدتی معاہدے کے تحت آنے والی ایل این جی اور اسی طرح کے پرانے ٹھیکے سب سے زیادہ سبسڈی والے گھریلو سیکٹر کو فراہم کی جائے گی۔

درآمدی اور مقامی گیس کی قیمتوں میں 8 ڈالر اور 3.2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کا فرق ہے اور ملک کو جنوری کے اوائل میں کم از کم 200 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی کی کمی کا سامنا ہوگا کیوں کہ پاکستان اسٹیٹ آئل نے اسی طرح کی بولیاں حال ہی میں مسترد کردی تھیں۔

ماہرین نے بولی میں گیس کی پیداواری کمپنی قطر گیس کے براہ راست بولی کے عمل میں حصہ لینے کو مثبت پیش رفت قرار دیا جس سے روایتی تاجروں اور سپلائرز کے لیے مسابقت پیدا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: سی این جی اسٹیشنز کو جلد نئے لائسنس جاری کیے جائیں گے

حکومت کے پاس اب واحد حل یہ ہے کہ جنوری میں 200 ایم ایم سی ایف ڈی کے فرق کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر قطر کو منسلک کرے بصورت دیگر بجلی گھروں کی موجودہ سپلائی کو گھریلو صارفین کی جانب موڑنا پڑے گا تا کہ ایسے وقت میں عوام کے ردِ عمل سے بچا جاسکے کہ جب اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی سڑکوں پر ہیں۔

دوسری جانب ایک عوامی سماعت میں نجی سیکٹرز کے اسٹیک ہولڈرز نے درآمدی ایل این جی کو پائپ لائن نیٹ ورک کے ذریعے ایل این جی پہنچانے کے لیے تمام کمپنیوں بشمول سرکاری سیکٹر کی کمپنیوں کے مساوی نرخوں کا مطالبہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں