امریکا کے بعد برطانیہ نے بھی راؤ انوار پر پابندیاں عائد کردیں

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2020
برطانیہ نے راؤ انوار کا نام مبینہ طور پر190سے زائد انکاؤنٹرز میں ملوث ہونے پر فہرست میں شامل کیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
برطانیہ نے راؤ انوار کا نام مبینہ طور پر190سے زائد انکاؤنٹرز میں ملوث ہونے پر فہرست میں شامل کیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لندن: برطانیہ نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ضلع ملیر کے سابق سینئر سپرنٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اور ملک میں انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام سے معروف راؤ انوار احمد خان پر پابندیاں عائد کردیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے پاکستان میں مبینہ طور پر 190 سے زائد انکاؤنٹرز میں ملوث ہونے پر راؤ انوار پر پابندیاں عائد کیں، جس کی وجہ سے مبینہ طور پر 400 سے زائد ہلاکتیں سامنے آئیں۔

مزید پڑھیں: امریکا نے راؤ انوار سمیت 18 افراد پر پابندیاں عائد کر دیں

علاوہ ازیں برطانوی حکومت کی جانب سے گیمبیا کے سابق صدر یحیٰ جامع پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی پر سفری اور معاشی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا۔

گیمبیا کے سابق آمر (ڈکٹیٹر)، جو دسمبر 2016 میں الیکشن میں شکست کے بعد ملک سے فرار ہوگئے تھے، عالمی طور فہرست میں شامل 10 افراد جبکہ مغربی افریقہ کی اقوام میں 3 افراد میں سے ایک ہیں۔

راؤ انوار پر امریکی پابندیاں

گزشتہ سال 11 دسمبر کو امریکا نے پاکستان میں جعلی پولیس مقابلوں کے لیے بدنام سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر پابندیاں عائد کیں تھیں۔

امریکی محکمہ خزانہ سے جاری بیان کے مطابق راؤ انوار، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر کے طور پر متعدد جعلی پولیس انکاؤنٹرز کے ذمہ دار ہیں جن میں پولیس کے ہاتھوں کئی افراد ہلاک ہوئے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ راؤ انوار 190 سے زائد پولیس انکاؤنٹرز میں ملوث رہے جن میں 400 سے زائد اموات ہوئیں، جن میں نقیب اللہ محسود کا قتل بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار پر فرد جرم عائد

امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق راؤ انوار نے پولیس اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ٹھگوں کے نیٹ ورک کی مدد کی جو مبینہ طور پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، منشیات کی فروخت اور قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ راؤ انوار پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔

نقیب اللہ کے قتل کا معاملہ

13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا، جنہیں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معامہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

اس وقت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا، سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

بعد ازاں مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں تھی جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع بھی دیا گیا تھا، تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے، جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

اس کے بعد یہ معاملہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا تھا، جہاں مختلف سماعتوں میں راؤ انوار کو پیش کیا گیا تھا لیکن ان پیشیوں کے دوران راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی انہیں خصوصی بیلٹ پہنائی گئی تھی۔

عدالت میں زیرِ سماعت اس معاملے میں راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے منظور کرلیا گیا تھا، تاہم ان کا نام ابھی بھی ای سی ایل میں شامل ہے جس کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔

یاد رہے کہ جنوری 2019 میں نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کے مبینہ طور پر قتل کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے راؤ انوار پولیس سروسز سے ریٹائر ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں