وزیراعظم کی جانب سے پی ٹی آئی کے بیانیے کی براہ راست نگرانی کا انکشاف

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2020
وزیر اعظم معاونین اور ترجمانوں سے واٹس ایپ پر رابطے میں رہتے ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر اعظم معاونین اور ترجمانوں سے واٹس ایپ پر رابطے میں رہتے ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: پارٹی ترجمان کی زندگی میڈیا کی توجہ کی چکا چوند سے مالا مال ہوتی ہے لیکن حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے اندر ایک انوکھا چیلنج درپیش ہے کہ آپ وزیر اعظم عمران خان سے محض ایک واٹس ایپ پیغام پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے اندر موجود قابل بھروسہ افراد کو غیر رسمی طور پر حکومت کے بیانیے کو پھیلانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور انہوں نے ترجمانوں کا ایک نیم سرکاری گروپ تشکیل دیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر وزیراعظم کے ساتھ باقاعدہ بریفنگ سیشن کرتا ہے، ان میں سے بیشتر کو حکومت یا پارٹی کا سرکاری ترجمان بنانے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: نیب نے تحریک انصاف کے صوبائی وزیر اور 2 ارکان اسمبلی کو طلب کرلیا

پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم ذاتی طور پر واٹس ایپ کے ذریعے مختلف ترجمانوں کو ان کی کارکردگی پر رائے دیتے ہیں، تاہم یہ ہمیشہ پیٹھ پر تھپکی نہیں ہوتی۔

وزیراعظم کے دفتر میں موجود ایک اندرونی ذرائع نے ڈان کو تفصیلات بتائیں کہ کس طرح وزیراعظم کی نگرانی میں یہ بیانیہ سازی کا طریقہ کار براہ راست کام کرتا ہے۔

وزیر اعظم مستقل طور پر اپنے ترجمانوں کی میٹنگ کرتے ہیں اور اجلاس سے باضابطہ طور پر جاری کردہ بیانات عام طور پر ٹی وی اور اخبارات کی شہ سرخی بنتے ہیں، لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جلسے کے ایک دن بعد پیر کو اس طرح کے ایک اجلاس میں وزیراعظم کو رپورٹ کرتے ہوئے حزب اختلاف کے جلسے کو ’فلاپ شو‘ قرار دیا گیا۔

تحریک انصاف حکومت کے پہلے وزیر اطلاعات اور موجودہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ڈان کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے وہ رہنما اور کابینہ کے اراکین جو ٹی وی شوز میں باقاعدگی سے مہمان ہوتے ہیں وہ حکومت کے ترجمانوں کے اس غیر رسمی گروپ کا حصہ ہیں اور وزیر اعظم انہیں وزیر اعظم آفس یا اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں اجلاس کے لیے طلب کرتے ہیں جہاں یہ ملاقات 90 منٹ تک جاری رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے لوگ جو اسلام آباد سے باہر رہتے ہیں ویڈیو لنک کے ذریعے اس ملاقات میں شرکت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی شرط پر فوج سے بات ہوسکتی ہے، مریم نواز

میڈیا میں چلنے والے موضوعات پر تازہ ترین بیانیے سے لیس ہونے کے بعد ان ترجمانوں کو میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بھیجا جاتا ہے جہاں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بیان کو پورے یقین کے ساتھ آگے بڑھا دیں، عہدیداروں کا کہنا ہے کہ رائے اور تشخیص کے لیے ان کی کارکردگی کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ طریقہ کار اس طرح کام کرتا ہے کہ اگر کسی تکنیکی مسئلے کی تشہیر یا دفاع کی ضرورت ہے تو متعلقہ وزیر یا مشیر کو اجلاس میں مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان ترجمانوں کو بریفنگ دیں اور اس میں سرخی والے معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے۔

اس طرح کے اجلاسوں میں شرکت کرنے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مثال کے طور پر شہزاد اکبر کو اپوزیشن رہنماؤں کے احتساب اور بدعنوانی کے معاملات کے حوالے سے تازہ اپ ڈیٹ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو معیشت کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

ایک وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ملاقاتیں ان ترجمانوں کو ایک موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنی پالیسی کو اوپر سے درست کر سکیں اور پالیسی کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے ہوئے سوالات پوچھنے اور تجاویز دینے کا موقع حاصل کر سکیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا معاونین خصوصی کو برقرار رکھنے کیلئے مختلف آپشنز پر غور

جن لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فورم کے باقاعدہ اراکین ہیں ان میں وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری، وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر صنعت حماد اظہر، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوان عثمان ڈار، سینیٹر فیصل جاوید، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید، ندیم افضل گوندل، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات رؤف حسن، معاون خصوصی شہباز گل، ولید اقبال، کنول شوزاب، ملائیکا بخاری اور صداقت عباسی شامل ہیں۔

وزیر اعظم کے دفتر کے ایک عہدیدار نے کہا کہ معمول کی مشق کے برعکس جب وزیر اعظم سے ملاقات کے منٹس تیار ہوجاتے ہیں اور ایک باضابطہ پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے تو ترجمانوں کی ملاقاتیں غیر رسمی رہ جاتی ہیں اور اس کے بعد کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی جاتی، انہوں نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ وزیر اعظم ہاؤس کے عہدیداروں کو بھی ان اجلاسوں میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں