ڈینیئل پرل کیس: ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک لاش کی شناخت نہیں ہوئی تھی، وکیل

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2020
ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل نے کہا کہ کیس کی دوبارہ ٹرائل کی ضرورت نہیں—فائل/فوٹو: ڈان
ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل نے کہا کہ کیس کی دوبارہ ٹرائل کی ضرورت نہیں—فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل کیس کی سماعت کے دوران ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک لاش کی شناخت نہیں ہوئی تھی جبکہ والدین نے کہا کہ عدالت خود شواہد کا جائزہ لے سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈینیئل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، جہاں ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے۔

مزید پڑھیں: ڈی این اے سے ڈینیئل پرل کی لاش کی شناخت ہوئی تھی، وکیل کا انکشاف

ڈینییل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ عدالت اغوا اور قتل کے شواہد کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لے، پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مقتول کی عمر، قد اور لباس کی پہچان ہوئی جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ٹرائل کے دوران آچکی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل آخری مراحل پر ہونے کے باعث شاید پوسٹ مارٹم کو فیصلے کا حصہ نہیں بنایا گیا، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ریاست یا مدعی نے پوسٹ مارٹم کو ٹرائل کا حصہ بنانے کی درخواست کی تھی۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کیسے الہام ہوا کہ ڈینیئل پرل کی لاش فلاں جگہ دفن ہے، ٹرائل کورٹ کو درخواست دے کر ضروری اقدامات کرنے چاہیے تھے۔

وکیل نے مؤقف اپنایا کہ اگر کوئی اہم شواہد ریکارڈ نہ ہو تو ہائی کورٹ کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک لاش کی شناخت نہیں ہوئی تھی، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ چالان کا حصہ نہیں تھی اس لیے دوبارہ چالان ہوسکتا تھا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ بتائیں اب سپریم کورٹ سے کیا استدعا کریں گے، جس پر وکیل نے کہا معاملہ ٹرائل کورٹ یا ہائی کورٹ کو بھیجا جا سکتا ہے اور سپریم کورٹ خود بھی شواہد کا جائزہ لے سکتی ہے تاہم دوبارہ مکمل ٹرائل کی ضرورت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ نے ملزمان کے اعتراف جرم پر سوالات اٹھا دیے

وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کے بعد عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل نے انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈینیئل پرل کی لاش کا ڈی این اے ہوا تھا جس سے ان کی شناخت ہوئی تھی۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ کیس میں بار بار ایک ہی غلطی کو دہرایا جا رہا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی غلط لکھا کہ مقتول کی لاش نہیں ملی حالانکہ ڈینیئل پرل کی لاش ملی اور ڈی این اے بھی ہوا جس سے ڈینیئل کی لاش کی شناخت بھی کی گئی۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

بعد ازاں حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

عدالت نے مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی درخواست

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پروسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں