'چیئرمین نیب طلب کرنے پر سینیٹ میں نہ آئے تو قانونی اختیارات استعمال کریں گے'

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2020
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ  میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ چیئرمین نیب کو سینیٹ میں طلب کیا جائے گا—تصویر: ڈان نیوز
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ چیئرمین نیب کو سینیٹ میں طلب کیا جائے گا—تصویر: ڈان نیوز

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو سینیٹ میں طلب کیا جائے گا اور اگر وہ نہ آئے تو قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیں پیش کرنے کے لیے وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں لوگوں کو طلب کرنے کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا، قائمہ کمیٹی وارنٹ جاری کرسکتی ہے اور میں نے خود بحیثیت کمیٹی چیئرمین لوگوں کے وارنٹ جاری کیے ہیں جو پہنچنے سے قبل وہ حاضر ہوگئے، اس لیے اگر نیب کے چیئرمین نہیں آئے تو ان کے وارنٹ بھی جاری کیے جائیں گے انہیں پیش کیا جانا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں فیصلہ کرتی ہیں کہ استعفے دینے ہیں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا اور یہ سیاسی نظام کا حصہ ہیں، دنیا بھر میں استعفے، تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہیں، پی ٹی آئی نے بھی اپوزیشن میں رہتے ہوئے استعفے دیے تھے جو بعد میں انہوں نے واپس لے لیے تھے اس میں کوئی غیر جمہوری بات نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین الزامات کے بعد سلیم مانڈوی والا کی چیئرمین نیب سے ملاقات

نیب قانون میں ترمیم کے بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نیب قوانین میں ترمیم کے لیے آرڈیننس لائی تھی جو بہت واضح تھا کہ نجی کاروبار اور بیوروکریسی سے نیب کا تعلق نہیں رہے گا لیکن اس میں اپوزیشن کو یہ اعتراض تھا کہ صرف ان دو شعبوں کو استثنیٰ کیوں دیا جارہا ہے لہٰذا اس پر کوئی اتفاق نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ اتفاق ہوجائے گا اور یہ قانون کی شکل اختیار کرلے گا جس کے بعد نیب صرف حکومت اور اپوزیشن کی بدعنونی تک محدود ہوجائے گا جس کے لیے اسے تشکیل دیا گیا تھا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کو میں نے کہتے ہوئے سنا کہ انڈر انوائسنگ کے کیسز ایف بی آر کو دیے جارہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ کیسز نیب کے پاس کیسے آئے، نیب کا تعلق کب سے درآمدات اور برآمدات سے ہوگیا، ہمارے پاس سینیٹ میں شکایتوں کی طویل فہرست بن چکی ہے، نیب کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ لوگوں پر اتنا دباؤ ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آپ کا کاروبار ختم کردیں گے، آپ کسی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں بن سکتے، ہم آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے ہمارے ساتھ پلی بارگین کرلیں۔

مزید پڑھیں: نیب رپورٹ میں سلیم مانڈوی والا کے خلاف الزامات کی توثیق

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ چیئرمین نیب کو سینیٹ میں طلب کیا جائے گا اور اگر وہ نہیں آتے تو قانونی اختیارات استعمال ہوں گے اور پیش کرنے کے وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم نہ ہونا سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے، اگر وہ اپنے دور حکومت میں ترمیم کرلیتے تو آج یہ حال نہ ہوتا، سیاسی انتقام اپنی جگہ لیکن کاروبار افراد کا نیب سے کیا لینا ہے نجی پلاٹ بیچنے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کو، ملک میں کچھ امپورٹ کرنے پر نیب کا نوٹس آجاتا ہے۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ سارے ادارے بند کر کے نیب کو ہر چیز کا انچارج بنادیں۔

سینیٹ انتخابات قبل از وقت کروانے سے متعلق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ جہاں تک میرے علم میں ہے سینیٹ کے انتخابات وقت پر ہوں گے اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی اس میں تبدیلی ممکن ہے اور میں سمجھتا ہوں اتنے کم وقت میں اتنا بڑا اقدام نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کل انتخابات کروانے یا پرسوں انتخابات کروانے کے اعلانات صرف باتیں ہیں ایسے نہیں ہوگا، وہ منصوبے کے مطابق ہی ہوگا، 11 مارچ کو سینیٹرز ریٹائر ہوں گے اس سے قبل شیڈول آئے گا، 30 روز میں الیکشن کمیشن پورا طریقہ کار طے کرے گی اس کے بعد سینیٹ کے انتخابات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کو سینیٹ میں طلب کرنے کیلئے تحریک استحقاق

انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کا اپنا احتساب کا نظام ہے فوج اپنے لوگوں کا احتساب کرتی ہے اسی طرح پارلیمنٹرین کا احتساب بھی پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے، ہمارا احتساب پولیس بھی کرتی ہے، ایف آئی اے اور نیب بھی کرتا ہے جس ادارے کی مرضی ہوتی ہے سیاستدان کا احتساب کرتا ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ہمیں قانون منظور کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹیرین کی بات آئے تو پارلیمنٹ ہی اس کا احتساب کرے، اس کا ذمہ دار بھی میں سیاسی جماعتوں کو ٹھہراتا ہوں کہ وہ نیب آرڈیننس میں ترمیم اور اس قسم کا قانون بنانے میں ناکام ہوئیں ہیں، اس قسم کی قانون سازی ہونی چاہیے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے الزام عائد کیا کہ نیب کے عہدیداران کی جعلی ڈگریاں، جعلی ڈومیسائلز اور آمدن سے زائد اثاثے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز والے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ نیب والے آکر کہتے ہیں کہ سوسائٹی کی گورننگ باڈی ہم بنائیں گے ہمارے اراکین اس میں شامل کیے جائیں گے، اس حوالے سے میں ہر چیز میڈیا کو جاری کروں گا اور ہماری تمام سماعتیں شفاف ہوں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں