سونے، جواہرات کے شعبے میں ٹیکس دینے میں ٹال مٹول کے باعث خزانے کو بڑے نقصان کا انکشاف

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2020
5 برسوں میں سونے کی قیمت میں 180 فیصد سے زائد اضافہ ہوا—فائل فوٹو: ڈان
5 برسوں میں سونے کی قیمت میں 180 فیصد سے زائد اضافہ ہوا—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: ملک میں سونے اور قیمتی پتھر کے شعبے میں ٹیکس کی ناقص تعمیل کے باعث قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے۔

اس بات کا انکشاف وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ڈائریکٹریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کی جاری کردہ رپورٹ میں کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ نتائج اس وقت سامنے آئے جب ایف بی آر کی جانب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات کی تعمیل کے سلسلے میں ریئل اسٹیٹ، جواہرات اور زیورات کے شعبوں میں دہشت گردی کی مالی معاونت پر پابندی کے لیے قواعد نوٹیفائڈ (نافذ) کیے۔

اگرچہ وزارت تجارت سونے کی درآمدات اور برآمدات کی نگرانی کرتا ہے تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ تعداد ملک میں سونے کی اصل تجارت کی عکاسی نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں: سونے کی قیمت میں 2 ہزار روپے سے زائد کی کمی

ڈائریکٹریٹر نے متعدد گرے ایریاز کی نشاندہی بھی کی جہاں ٹیکسز تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2019 کی ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی میوچل ایوالیوایشن رپورٹ کے مطابق مالیاتی جرائم مقامی طور پر زیادہ تر ریئل اسٹیٹ سیکٹر، قیمتی دھاتوں اور جواہرات کے ذریعے شروع کیے جاتے ہیں جبکہ نگرانی اور ضابطے کی عدم موجودگی کے باعث 2 شعبے ریئل اسٹیٹ اور قیمتی جواہرات اور زیورات کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں درمیانے سے اونچے درجے تک خطرناک قرار دیا گیا ہے۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک بھر میں 60 ہزار جیولرز ہیں، جس میں سے صرف 21 ہزار 396 ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جس میں سے صرف 10 ہزار 524 نے 2019 میں اپنے ٹیکس ریٹرنز فائل کیے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف ود ہولڈنگ ریجیم کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد اوسطاً 9 ہزار ریٹرن فائلرز نے انکم ٹیکس کی ادائیگی نہیں کی۔

اگر فی ریٹرن فائلر کا اوسطاً سالانہ انکم ٹیکس کا تخمینہ لگائیں تو وہ 5 ہزار 964 روپے بنتا ہے جبکہ اس طرح کی دھاتوں کا کام کرنے والے جیولرز کافی آمدنی کماتے ہیں اور ٹیکس کی ایک معقول رقم ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری جانب گزشتہ 5 برسوں میں پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں 180 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

مزید یہ کہ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ بڑی تعداد میں جیولرز نے اپنی آمدنی کو ٹیکس ادا کرنے کی حد سے نیچے دکھایا، جو ایسے ٹیکس دہندگان کے ڈیکلیریشن (اعلان) کو شبہات میں ڈال دیتا ہے۔

اس شعبے میں ٹیکس کی تعمیل اتنی کم ہے کہ ٹیکس سال 2015 سے 2019 کے درمیان 56.56 فیصد رجسٹرڈ افراد نے گوشوارے جمع نہیں کروائے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان انکم ٹیکس قوانین کی تعمیل نہیں کر رہے۔

یہ بھی پڑھیں: بدامنی سے پاکستانی جواہرات کی صنعت متاثر

وہیں موجودہ قوانین مقامی فروخت کی مقدار، جیولرز کے پاس موجود اسٹاک، مینوفیکچرنگ کی سہولیات اور کسٹم پروفائلنگ کو دیکھنے کے لیے مناسب طریقہ کار یا دستاویزات فراہم نہیں کرتے۔

اسی طرح اس شعبے میں سیلز ٹیکس کی تعمیل بھی بہت حیران کن ہے، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 21 ہزار 396 قومی ٹیکس نمبر ہولڈرز میں سے صرف ایک ہزار 80 سیلز ٹیکس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے اوسطاً 157 رجسٹرڈ افراد سیلز ٹیکس ریٹرن فائلرز ہیں جبکہ باقی اپنے سیلز ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کرتے۔

اس میں تجویز دی گئی کہ وزارت تجارت، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کو سونے اور اس سے منسلک اشیا کی تجارت میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے موجودہ قوانین کا جائزہ لینا چاہیے، ساتھ ہی یہ بھی تجویز دی گئی کہ اس شعبے کو صنعت کا درجہ دینا چاہیے تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں