یونین کا 2 سال میں پاکستان اسٹیل ملز کو پہنچنے والے نقصان کی تحقیقات کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2020
یونین نے پاکستان اسٹیل ملز کو پہنچنے والے نقصان کی تحقیقات کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
یونین نے پاکستان اسٹیل ملز کو پہنچنے والے نقصان کی تحقیقات کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: جیسا کہ حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو تخفیفی لاگت اور تنخواہوں کی جزوی ادائیگی کے لیے تقریباً 12 ارب روپے جاری کیے ہیں تو انصاف لیبر یونین نے صدر اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پچھلے دو سالوں میں ملک کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ کو پہنچنے والے 50 ارب روپے سے زائد کے اضافی نقصان کی تحقیقات کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دو علیحدہ ہدایات کے مطابق وزارت خزانہ نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظور شدہ 4 ہزار 544 ملازمین کو تخفیف کے پہلے حصے کے طور پر پاکستان اسٹیل ملز کو ادائیگی کے لیے بطور قرض 11.013 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا ہے، وفاقی کابینہ کے حکم کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کو نومبر اور دسمبر کے مہینوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بطور قرض 64 کروڑ 70 لاکھ روپے جاری کردیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: پاکستان اسٹیل ملز سے 4 ہزار 544 ملازمین برطرف

دونوں قرضوں کو 20 سالوں میں شرح سود کے ساتھ وصول کیا جائے گا جبکہ بنیادی رقم کی وصولی کے لیے پانچ سال کا اضافی وقت بھی ہو گا، سود متعلقہ سال کی مروجہ شرح سے وصول کیا جائے گا۔

دوسری طرف انصاف لیبر یونین (سی بی اے) نے صدر اور وزیر اعظم کو خطوط لکھے ہیں اور انہیں آگاہ کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز اور وزارت صنعت حکام نے 4 ہزار 544 ملازمین کی تخفیف کی صورتحال کے حوالے سے انہیں گمراہ کیا گیا جس کے نتیجے میں کراچی میں امن وامان کی خراب صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔

سی بی اے نے غیر منصوبہ بند نجکاری، خام مال کی اسپاٹ خریداری، امتیازی اسٹیل درآمدی ٹیرف اور کوک اوون بیٹری پلانٹ کی نازک مرمت اور تحفظ کی لاگت سمیت 2006 سے 2020 کے درمیان پاکستان اسٹیل ملز کو ہونے والے نقصانات کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔

سی بی اے نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اسٹیل ملز انتظامیہ اور وزارت صنعت سے کہا جائے کہ وہ مارچ 2020 کے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کوئی قابل ذکر وجہ پیش کریں جہاں مذکورہ حکم میں عدالت نے نقصان کے حامل عوامل بتانے کا مطالبہ کیا تھا، یونین کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کو 2008 اور 2020 کے درمیان تقریباً 302 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد میں کمی کیلئے 19 ارب روپے سے زائد کی ضمنی گرانٹ منظور

انصاف لیبر یونین نے دعویٰ کیا کہ موجودہ پاکستان اسٹیل ملز انتظامیہ بھی متنازع ہے کیونکہ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور دیگر اعلیٰ افسران کے تقرر خاص مقصد کے تحت تیار کردہ اشتہار کے ذریعے کیے گئے تھے جسے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

یونین نے اسٹیل امپورٹ ٹیرف کو معقول بنانے میں رکاوٹیں ڈالنے، مالی بحالی کے لیے احتساب کے عمل کے آغاز اور پاکستان اسٹیل ملز میں پیشہ ورانہ انتظامیہ کے تقرر کے لیے اجلاس میں موجود کابینہ کے کچھ اراکین کی ساکھ پر بھی سوال اٹھائے۔

سی بی اے نے استدلال کیا کہ واقعات کا تاریخ کے لحاظ سے مشاہدہ کیا جائے تو نجکاری پاکستان اسٹیل ملز کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہے جس سے 2005 سے 2020 کے درمیان قومی خزانے کو 12 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔

انصاف لیبر یونین نے صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کو یاد دلایا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے مفلوج پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی پاکستان تحریک انصاف ترجیحات میں شامل تھی جس کا منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر نے متعدد بار وعدہ بھی کیا تھا تاہم ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے مستقل چیف ایگزیکٹو آفیسر اور چیف مالیاتی افسروں کا تقرر نہیں کیا اور ریٹائرڈ ملازمین کو ادائیگی سمیت مقامی انسانی وسائل اور فنڈز کے ذریعے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے تجاویز کو مسترد کردیا۔

مزید پڑھیں: نجکاری کیلئے اسٹیل ملز کے ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی منظوری

یونین نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے نقصانات پی ٹی آئی کے دور اقتدار کے 29 مہینوں میں تقریباً 50 ارب روپے بڑھ چکے ہیں جس سے اس سال جون میں مجموعی خسارہ 212 ارب روپے کا ہو گیا تھا پاکستان اسٹیل ملز کے جمع شدہ نقصان رواں سال جون میں 212 ارب روپے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں سال 2019-2018 کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس خسارہ 188 ارب روپے تھا۔

سی بی اے نے مطالبہ کیا کہ 4 ہزار 544 ملازمین کے تخفیفی خطوط کو اس وقت تک واپس لیا جائے جب تک کہ سپریم کورٹ پاکستان اسٹیل ملز کا فیصلہ نہیں کر لیتی اور اس وقت تک نجکاری/عوامی نجی شراکت داری کے ذریعے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے منصوبے کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جائے اور اس منصوبے کا پی ایس ایم سی کے اسٹیک ہولڈرز گروپ کی جانب سے تجویز کردہ منصوبے سے موازنہ کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں