نارووال اسپورٹس سٹی کیس: احسن اقبال و دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2020
احسن اقبال مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
احسن اقبال مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال و دیگر پر فرد جرم عائد کردی۔

وفاقی دارالحکومت میں احتساب عدالت کے جج اصغر علی نے احسن اقبال و دیگر کے خلاف دائر نارووال اسپورٹس سٹی کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر احسن اقبال کے وکیل طارق محمود جہانگیری کے جج بننے کے بعد جہانگیر جدون بطور وکیل پیش ہوئے۔

دوران سماعت وکیل جہانگیر جدون نے مؤقف اپنایا کہ یہ کیس کہاں بنتا ہے؟ کیا ہمارے ماتھے پر لکھا ہوا ہے؟

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کے خلاف نیب ریفرنس دائر

اسی دوران فرد جرم کی کارروائی سے قبل احسن اقبال نے اس پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ جج نے پہلے دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں۔

جس پر جج اصغر علی نے ریمارکس دیے کہ ہم سامنے پیش کیا گیا ریکارڈ دیکھ کر ہی کہہ رہے ہیں یہ بادی النظر میں کیس بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے سے پہلے فیصلہ نہیں سنا سکتے، شواہد دیکھے جائیں گے۔

اس پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ جج صرف استغاثہ کی بات سن کر نہیں بات کیا کرتا، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں ایسی باتیں سننے نہیں بیٹھے، جس کے ساتھ ہی عدالت کے جج نے احسن اقبال کو بات کرنے سے روک دیا۔

اس موقع پر جج اصغر علی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کوئی درخواست دائر کرنی ہے تو کریں یا اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں۔

بعد ازاں عدالت نے سابق وزیر ترقی و منصوبہ بندی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال پر مذکورہ کیس میں فرد جرم عائد کردی جس پر انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا۔

ساتھ ہی عدالت نے ملزمان اختر نواز گنجیرا، سرفراز رسول، آصف شیخ اور نجی ٹھیکیدار محمد احمد پر بھی فرد جرم عائد کی۔

تاہم تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا، جس کے بعد عدالت نے 12 جنوری کو استغاثہ (نیب) کے گواہان کو طلب کرلیا۔

جھوٹے ریفرنس کا مقصد دباؤ ڈالنا ہے، احسن اقبال

علاوہ ازیں احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ان جھوٹے ریفرنسز کا مقصد اپوزیشن کی کردار کشی، دباؤ ڈالنا اور تکلیف دینا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سیاسی مقدمات کی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم جاری کریں، تاکہ عوام کو پتا چلے کہ عمران خان کے احتساب کی کتنی ٹانگیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ریاست کے وسائل کو جھوٹ کے اوپر جھونک رہی ہے، ہمارے خلاف وہ شخص کیس بنا رہا ہے جس نے سی ڈی اے پر دباؤ ڈال کر بنی گالا کی غیرقانونی تعمیر کو قانونی تعمیر میں تبدیل کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: نارووال اسپورٹس سٹی کیس: مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال گرفتار

احسن اقبال نے الزام لگایا کہ عمران خان نے سیکڑوں غریبوں کے گھر غیرقانونی قرار دے کر گرا دیے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عمران خان کا گھر غیر قانونی طور پر ریگولرائز کرنے والے سی ڈی اے کے افسران کے خلاف کارروائی ہوگی اور بنی گالا کا این آر او لینے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ زون تھری میں آنے والی جگہ کو زون 4 میں ڈال کر قانونی کروا لیا گیا جبکہ عمران خان نے اپنے دفتر اور اختیارات کا استعمال کر کے گھر ریگولرائز کرایا۔

نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے، خود کو اسپورٹس مین کہنے والے وزیراعظم کے دور میں کھیلوں کا منصوبہ لگانا جرم بن گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے مطابق نیب میرے خلاف ایک پیسے کی مالی بدعنوانی سامنے نہیں لا سکا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر الزام لگایا گیا کہ نارووال میں اسپورٹس کمپلیکس کیوں بنایا گیا، کیا نارووال بھارت یا اسرائیل میں ہے کہ وہاں اسپورٹس کمپلیکس نہیں بن سکتا۔

انہوں نے کہا کہ نارووال کا انتخاب میں نے نہیں کیا بلکہ 2009 میں یہ ہو چکا تھا۔

احسن اقبال گرفتاری و نیب ریفرنس

خیال رہے کہ نارووال اسپورٹس سٹی اسکینڈل میں نیب نے 23 دسمبر 2019 کو احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ 2 ماہ سے زائد عرصے حراست میں رہے تھے اور پھر رواں سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں 25 فروری کو ضمانت دی تھی۔

بعد ازاں 9 ماہ بعد نومبر کے مہینے میں نیب نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس میں احسن اقبال اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب ریفرنس کے مطابق احسن اقبال اور دیگر نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، 'غیر قانونی طور پر منصوبے کے دائرہ کار کو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار سے 3 ارب روپے تک بڑھا دیا'، مزید یہ کہ منصوبے کا ابتدائی خیال 1999 میں احسن اقبال کی ہدایت پر ’بغیر کسی فزبلٹی اسٹڈی‘ کے پیش کیا گیا تھا۔

ریفرنس کے مطابق 1999 میں جب سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کی سربراہی احسن اقبال کررہے تھے تو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار روپے کی لاگت پر نارووال منصوبے کی ابتدائی منطوری دی گئی تھی، اسی سال ان کی پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) اور نیشنل انجینیئرنگ سروس آف پاکستان کو دی جانے والی 'غیر قانونی' ہدایت پر منصوبے کی لاگت کو 9 کروڑ 75 لاکھ 20 ہزار روپے تک بڑھ گئی تھی۔

مزید پڑھیں: احسن اقبال نے وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس کے لیے نیب میں درخواست دائر کردی

احسن اقبال نے خود منصوبے کے لیے زمین کا انتخاب کیا تھا اور مخصوص خصرہ (پلاٹ) نمبرز کو پی ایس بی کے حوالے کیا تاکہ وہ اس کا انتخاب کرے، 1999 میں پاکستان اسپورٹس بورڈ نے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی ہدایت پر اس منصوبے کو اس بنیاد پر ملتوی کردیا تھا کہ اس منصوبے میں معاشی ضرورت کے حوالے سے وہ وزن نہیں تھا۔

بعد ازاں 2009 میں یہ منصوبہ دوبارہ شروع کیا گیا تھا اور تب اس کی لاگت 73 کروڑ 20 لاکھ روپے منظور کی گئی تاہم 18 ویں ترمیم کے بعد 2011 میں منصوبے کو حکومت پنجاب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

نیب کے مطابق جب احسن اقبال نے 2013 میں وزیر ترقی و منصوبہ بندی کا چارج سنبھالا تو انہوں نے غیرقانونی طور پر اپنی وزارت کے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ این ایس سی منصوبے کو پی ایس ڈی پی 14-2013 میں شامل کریں، یہ منصوبہ پی ایس ڈی پی 14-2013 کے مسودے میں شامل نہیں تھا کیونکہ یہ ایک منحرف منصوبہ تھا اور حکومت پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 14-2013 میں بھی اسے ظاہر کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں