گلگت بلتستان: ایس ایچ او کی ’بلاوجہ گرفتاری‘، اے ٹی سی جج عہدے سے برطرف

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2020
گلگت بلتستان کی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا—فائل فوٹو: سپریم اپیلیٹ کورٹ جی بی ویب سائٹ
گلگت بلتستان کی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا—فائل فوٹو: سپریم اپیلیٹ کورٹ جی بی ویب سائٹ

سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان نے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی بلاوجہ گرفتاری کے خلاف دائر کردہ درخواست پر انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کے جج کو عہدے سے برطرف کردیا۔

اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ گلگت بلتستان سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس گلگت بلتستان سید ارشد حسین شاہ اور سینئر جج جسٹس وزیر شکیل احمد پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے ایس ایچ او تھانہ بسین سید کامران حسین کی دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے بعد عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج محمود الحسن کو عہدے سے برخاست کرتے ہوئے چیف کورٹ میں رپورٹ کرنے کا حکم دے دیا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان کو برطرف کردیا

اعلامیہ میں بتایا گیا کہ 11 جولائی 2020 کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج محمود الحسن نے بسین تھانہ کے ایس ایچ او کو بلاوجہ گرفتار کرایا تھا۔

جس پر ایس ایچ او نے عدالت سے شکایت کرتے ہوئے ایک درخواست دائر کی تھی۔

مذکورہ اعلامیے کے مطابق عدالت نے ایس ایچ او کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ججز کی نگرانی میں انکوائری کا حکم دیا تھا، جس کی رپورٹ کی روشنی میں مذکورہ جج کو عہدے سے برخاست کردیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل چیف کورٹ نے بھی مذکورہ جج کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے وسائل استعمال کرنے پر فیصلہ سنایا تھا۔

عہدے سے برخاست ہونے والے محمود الحسن ڈیڑھ سال قبل سول جج بھرتی ہوئے تھے اور انہیں بعد ازاں انسداد دہشت گری عدالت کا جج مقرر کیا گیا تھا۔

اس سے قبل 7 دسمبر 2020 جو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان کو عہدے سے برطرف کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس وردی کی بڑی عزت ہے اس کو مجروح نہ کریں، چیف جسٹس ہائیکورٹ

رجسٹرار ہائی کورٹ نے چیف جسٹس کی ہدایت پر ایڈیشنل سیشن جج کی برطرفی کا نوٹی فیکشن جاری کیا تھا۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریڈ زون میں جھگڑے اور فائرنگ کرنے پر جہانگیر اعوان کو 14 ستمبر کو عہدے سے معطل کیا تھا۔

جہانگیر اعوان کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات پر اسلام آباد جوڈیشل سروسز رولز کے تحت کارروائی کی گئی تھی اور انہیں جواب جمع کرانے کے لیے شوکاز نوٹس دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں