یورپی یونین سے فری ٹریڈ معاہدے پر برطانوی وزیراعظم خوش

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2020
بورس جانسن نے پریس کانفرنس میں معاہدے کا اعلان کیا—فائل/فوٹو: اے ایف پی
بورس جانسن نے پریس کانفرنس میں معاہدے کا اعلان کیا—فائل/فوٹو: اے ایف پی

یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان بریگزٹ کے بعد تجارتی معاہدے پر کئی مہینوں سے جاری اختلاف بالآخر ختم ہوگیا اور نئے معاہدے پر اتفاق کر لیا گیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق ڈاؤننگ اسٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ 'ہم نے اپنے قوانین اور ہدف پر دوبارہ قابو پالیا ہے'۔

معاہدے کے جزیات ابھی جاری نہیں کیے گئے لیکن بورس جانسن نے دعویٰ کیا کہ 'یہ معاہدہ پورے یورپ کے لیے اچھا ہے'۔

مزید پڑھیں: برطانیہ، یورپی یونین بریگزٹ ڈیل کیلئے 'طویل کوششیں' کرنے پر رضا مند

برطانیہ اگلے ہفتے یورپی یونین کے تجارتی قوانین سے باہر نکل جائے گا حالانکہ معاہدے کے تحت ایک سال قبل ہے تجارتی حوالے سے الگ ہونا تھا۔

بورس جانسن کے اعلان کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کی شکل میں دو الگ معیشتیں بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور برطانیہ کے شہریوں کے لیے آسانی کا سامان پیدا ہوا ہے جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ 668 ارب یورو سالانہ کے معاہدے سے ملک بھر میں روزگار کو تحفظ ملے گا اور برطانوی مصنوعات بغیر ٹیرف اور یورپی مارکیٹ میں بغیر کوٹا کے فروخت ہوں گی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ماہی گیری کے حوالے سے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں یورپی یونین چاہتی تھی کہ منتقلی کا عمل 14 سال میں مکمل ہو اور ہم تین سال میں چاہتے تھے لیکن ہم 5 برس میں ختم کر چکے ہیں۔

بورس جانسن نے کہا کہ برطانیہ کو مالی حوالے سے خواہشات کے مطابق سب کچھ نہیں ملا جو برطانیہ کی معیشت کے لیے اہم ہے لیکن اس سے ہمارا تاریخی شہر لندن مستحکم ہوگا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ ایراسمس اسٹوڈنٹس ایکسچینج پیکیج کا حصہ نہیں رہے گا کیونکہ یہ منصوبہ انتہائی مہنگا ہے لیکن برطانیہ متبادل کے طور پر ٹرننگ اسکیم کے نام سے سہولت فراہم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے تجارتی معاہدے کی آخری کوششیں جاری

دوسری جانب برسلز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یورپین کمیشن کی صدر عرسولا ون ڈیر لیئن کا کہنا تھا کہ 'یہ طویل راستہ تھا لیکن ہم ایک اچھا معاہدہ سامنے لے کر آئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اب صفحہ پلٹ کر مستقبل کی طرف دیکھنے کا وقت آگیا تھا اور برطانیہ بدستور ایک آزمودہ شراکت دار ہے۔

'اسکاٹ لینڈ کی خواہشات کو دھچکا'

معاہدے کی توثیق کے لیے 30 دسمبر کو برطانوی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا جہاں معاپدے پر ووٹنگ ہوگی۔

متوقع طورپر معاہدے کی حمایت کرنے والی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کا کہنا تھا کہ فری ٹریڈ معاہدے کا مکمل متن جلد شائع کیا جائے گا۔

ویلز کے رہنما مارک ڈریکفورڈ کا کہنا تھا کہ معاہدے کا ہونا اس پر اتفاق نہ ہونے سے بہتر ہے لیکن انہوں نے معاہدے کے وقت پر تنقید کیی۔

اسکاٹ لینڈ کے رہنما نیکولا اسٹرجیون کا کہنا تھا کہ 'بریگزیٹ، اسکاٹ لینڈ کی خواہشات کے برعکس ہو رہا ہے اور بریگزٹ کی وجہ سے جو کچھ ہم سے چھینا جائے گا اس کا مداوا کوئی معاہدہ نہیں کرے گا'۔

مزید پڑھیں: برطانیہ نے ’ معاہدے کے بغیر بریگزٹ‘ کی تیاریاں شروع کردیں

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ وقت ہمیں ایک آزاد یورپی قوم کے طور پر اپنا مستقبل بنانے کا ہے'۔

آئرش وزیر اعظم مائیکل مارٹن کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے کو مکمل طور پر پڑھیں گے اور جو کچھ ہم نے سنا ہے وہ میرے خیال میں ایک اچھا معاہدہ اور متوازن نتیجہ ہے۔

یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے بڑھ چڑھ کر مہم چلانے والے بریگزٹ پارٹی کے سربراہ نیجل فیریگ کا کہنا تھا کہ معاہدہ 'مضبوط نہیں ہے لیکن یہ ایک بڑا لمحہ ہے اور اب واپسی کا کوئی موقع نہیں ہے'۔

'بریگزٹ'، کب کیا ہوا ؟

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد طے کیا گیا تھا 29 مارچ 2019 کو برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔

جولائی 2016 کو وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا رہا اور انہوں نے اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کی کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کو بریگزٹ معاہدے کی تکمیل میں 6 ماہ تک کی توسیع مل گئی

مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔

بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبر پارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ تیسری مرتبہ مسترد کردیا

بعد ازاں رواں سال 29 مارچ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

برطانوی دارالعوام میں بریگزٹ معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے جس کے بعد آئندہ دو ہفتوں میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہوگا یا اس میں طویل تاخیر ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔

رواں سال 11 اپریل کو یورپی ممالک کے رہنماؤں نے برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر 6 ماہ تک کی توسیع پر آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔

بریگزٹ میں توسیع کے معاملے میں یورپی ممالک کے 27 رہنماؤں نے برسلز میں مذاکرات کرنے کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ برطانیہ، یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں