مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کے کپتان نے 3 مزدوروں کو جعلی مقابلے میں قتل کیا، پولیس

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2020
پولیس کی خصوصی ٹیم نے آرمی افسر کے خلاف 300 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جمع کی—فائل فوٹو: اے پی
پولیس کی خصوصی ٹیم نے آرمی افسر کے خلاف 300 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جمع کی—فائل فوٹو: اے پی

مقبوضہ جموں و کشمیر کی پولیس نے 3 مقامی مزدوروں کو عسکریت پسند قرار دے کر قتل کرنے والے بھارتی فوج کے ایک کپتان اور اس کے دو سپاہیوں کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں پیش کردی۔

ترکی کے خبررساں ادارے 'اناطولو' کی رپورٹ کے مطابق مقامی عدالت میں دائر چارج شیٹ میں مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے کہا کہ کپتان نے 8 جولائی کو مقبوضہ جنوبی کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم ظاہر کرکے فائرنگ کی تھی۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں انکاؤنٹر میں قتل کیے گئے 3 نوجوان مزدور تھے، اہلخانہ

جعلی مقابلے کی تفتیش کرنے والی مقبوضہ جموں وکشمیر پولیس کی خصوصی ٹیم نے بھارتی فوج کے افسر کے خلاف 300 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جمع کر دی۔

مقامی میڈیا نے تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس وجاہت حسین کے حوالے سے بتایا کہ جنوبی کشمیر کے پرنسپل اور سیشن کورٹ شوپیاں کے علاقے میں 3 ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی ہے۔

انہوں نے ملزم کی شناخت 62 راشٹریہ رائفلز کے کیپٹن بھوپندر اور جنوبی کشمیر کے شوپیاں اور پلوامہ اضلاع کے رہائشی تابش احمد اور بلال احمد کے نام سے کی۔

اس سے قبل بھارتی فوج نے جعلی مقابلے کے بارے میں کہا تھا کہ شواہد کی سمری کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے جس میں جموں کے ضلع راجوڑی سے تعلق رکھنے والے 3 مزدور جاں بحق ہوگئے تھے۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فورسز نے 24 گھنٹے میں 5 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا

بھارتی فوج نے مزید کہا تھا کہ متعلقہ حکام قانونی مشیروں کے ساتھ کیس کی مزید کارروائی کے لیے جانچ کررہے ہیں۔

اس سے قبل لواحقین نے جاں بحق افراد کی شناخت 21 سالہ امتیاز احمد، 25 سالہ ابرار احمد اور 18 سالہ ابرار کھٹانہ کے نام سے کی تھی۔

تاہم ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر قانونی مراحل پورے کرنے کے 70 دن بعد مقتول نوجوانوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کردی گئیں۔

خیال رہے کہ 11 اگست کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں سے لاپتا ہونے والے 3 مزدوروں کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا تھا کہ 18جولائی کو بھارتی فوج نے جن 3 نامعلوم 'عسکریت پسندوں' کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ درحقیقت ان کے بے گناہ رشتے دار تھے۔

بعدازاں سیاسی تجزیہ کار اور جموں سے آئے ہوئے صحافی ظفر چوہدری نے ٹوئٹ کیا تھا کہ انہوں نے اس خاندان سے بات کی ہے جنہوں نے بلاشک و شبہ تینوں نوجوانوں کی شناخت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے آئینی دہشت گردی کی، راجا فاروق

18 جولائی کو جموں و کشمیر پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ مقابلہ راشٹریہ رائفلز کی 62 بٹالین کی نشان دہی پر انجام دیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ تلاشی کے دوران دہشت گردوں نے فوجی جوانوں پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا، بعدازاں پولیس اور سی آر پی ایف بھی اس میں شامل ہوگئے، مقابلے کے دوران 3 ’نامعلوم دہشت گرد’ مارے گئے ، تینوں ’دہشت گردوں‘ کی لاشیں انکاؤنٹر کے مقام سے برآمد ہوئیں۔

ترجمان نے بتایا تھا کہ مرنے والے ’دہشت گردوں‘ کی شناخت اور وابستگی کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔

دریں اثنا بھارت کی کمیونسٹ پارٹی (مارکسی) نے تینوں مزدوروں کے لاپتا ہونے کے واقعے کو سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے لیے عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

پارٹی نے کہا تھا کہ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ لاپتا مزدور 18 جولائی کو شوپیاں میں جعلی مقابلے میں قتل کردیے گئے، یہ خبر چونکا دینے والی ہے اور اس کی مخصوص وقت کے اندر ہائی کورٹ کے کسی جج کے ذریعے تفتیش کرنی چاہیے۔

پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹوئٹ میں ان کی بیٹی التجا مفتی نے کہا تھا کہ شوپیاں میں ہونے والے "انکاؤنٹر" کی اطلاعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح افواج استثنیٰ کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں