ترکی کے ساتھ رواں ہفتے آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط کریں گے، برطانیہ

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2020
اس معاہدے سے ٹیرف فری تجارتی انتظامات ہوں گے اور ہمارے تجارتی تعلقات مضبوط ہوں گے، برطانوی وزارت تجارت—فوٹو: رائٹرز
اس معاہدے سے ٹیرف فری تجارتی انتظامات ہوں گے اور ہمارے تجارتی تعلقات مضبوط ہوں گے، برطانوی وزارت تجارت—فوٹو: رائٹرز

برطانیہ کی وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن کا یورپی یونین سے نیا تجارتی معاہدہ کرنے کے بعد برطانیہ اور ترکی کے درمیان منگل کو آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط ہوں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک ایک معاہدے پر دستخط کریں گے جو انقرہ اور لندن کے درمیان موجودہ تجارتی شرائط کی جگہ لے گا تاہم برطانوی وزیر تجارت لِز ٹروس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ جلد طے پا سکتا ہے۔

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس معاہدے پر دستخط کرنے کی توقع کرتے ہیں جس سے ٹیرف فری تجارتی انتظامات ہوں گے اور ہمارے تجارتی تعلقات کو مدد ملے گی'۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے تجارتی معاہدے کی آخری کوششیں جاری

ان کا کہنا تھا کہ 'اس سے مینوفیکچرنگ، آٹوموٹو اور اسٹیل کی صنعتوں میں برطانیہ میں ہزاروں ملازمتیں پیدا ہوں گی'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'اب ہم مستقبل قریب میں ترکی کے ساتھ برطانیہ اور ترکی کے تجارتی معاہدے کے تحت کام کرنے کے منتظر ہیں'۔

واضح رہے کہ 2019 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی لاگت 25 ارب 25 کروڑ ڈالر تھی۔

برطانیہ کا کہنا تھا کہ جاپان، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور ناروے کے ساتھ معاہدوں کے بعد وزارت تجارت نے اس پانچواں سب سے بڑا تجارتی معاہدہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے یکم جنوری کو بریگزٹ منتقلی کی مدت کے اختتام سے قبل 62 ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

اس نے گزشتہ ہفتے یورپی یونین، اس کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے ساتھ بھی تجارتی معاہدہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ، یورپی یونین بریگزٹ ڈیل کیلئے 'طویل کوششیں' کرنے پر رضا مند

واضح رہے کہ 26 جون 2016 کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ کو کامیاب بنایا تھا تاہم یورپی یونین سے کس طرح نکلا جائے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی تھی کہ بغیر معاہدے، یونین کو چھوڑنے کا ڈر خوف برطانوی عوام اور سیاستدانوں کو ستانے لگا تھا۔

بریگزٹ کا معاملہ کئی برس سے زیر بحث تھا اور بریگزٹ کی منظوری میں ناکامی پر برطانوی وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کی وجہ سے وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی تھیں جس کے بعد نو منتخب برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اس کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے تھے کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں