کراچی میں تجاوزات کا معاملہ: سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ پیش

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2020
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا جس پر وہ عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہوگئے۔

جس کے بعد انہوں نے مذکورہ معاملے پر رپورٹ پیش کرنے کے لیے مہلت طلب کی، جس پر عدالت نے عدالت نے انہیں ایک ماہ کا وقت دے دیا۔

عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے شہر میں تجاوزات کے خاتمے، کڈنی ہل پارک، ریلوے اراضی، کے سی آر و دیگر معاملات پر طویل سماعت کی، اس دوران مختلف سرکاری عہدیداران پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران تجاوزات کے خاتمے سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے حکم پر کتنا عمل درآمد ہوا؟ ہم نے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی تھی کہ عمل درآمد اور نگرانی کریں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کہاں ہے وزیراعلیٰ سندھ کی رپورٹ؟ انہوں نے ہمارا حکم پڑھا ہے؟، ساتھ ہی انہیں ہدایت کی کہ وزیر اعلیٰ کو بلائیں اور کہیں رپورٹ لے کر آئیں۔

مزید پڑھیں: 'کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں، لگتا ہے سندھ اور مقامی حکومت کی شہریوں سے دشمنی ہے'

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے موجود نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل کہاں ہیں؟ ان کو نہیں معلوم کہ کتنا اہم تھا یہ کیس۔

انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ سال پہلے حکم جاری کیا تھا لیکن اب تک عمل نہیں ہوا، کیا توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں۔

’کمشنر کو کیا معلوم ہوگا، 2، 2 ماہ میں تو کمشنر لگاتے ہیں‘

اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کمشنر کراچی سے پوچھ لیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمشنر کراچی کو کیا معلوم ہوگا، دو، دو مہینے کے لیے آپ کمشنر لگاتے ہیں، ہمیں وزیراعلیٰ بتائیں گے کہ کتنا عمل ہوا، یہ بے چارے افسران کیا بتائیں گے۔

عدالتی ریمارکس کے بعد ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بتا دیتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو رہنے دیں وزیراعلیٰ سندھ کو بلوا لیں۔

کمشنر کراچی کی سرزنش

دوران سماعت عدالت عظمیٰ میں حال ہی میں تعینات ہونے والے کمشنر کراچی پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ بتائیں عدالتی احکامات پر کتنا عمل درآمد ہوا؟ جس پر کمشنر نے جواب دیا کہ میری ابھی تعیناتی ہوئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تیاری کرکے آنا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ان لوگوں کو تو خود کچھ معلوم نہیں، شہر میں کیا ہو رہا ہے اور شہر کی کیا ضروریات ہوتی ہیں۔

عدالتی ریمارکس پر کمشنر کراچی نے کہا کہ متعلقہ اداروں کو ہدایت جاری کردی گئی تھیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے آگے کسی اور کو کہہ دیا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کیا صرف سیٹ گرم کرنے کے لیے بٹھایا گیا ہے؟ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے، کیا کرنا ہے؟ آپ کچھ نہیں جانتے، ادھر ادھر کی باتیں مت کریں، آپ نے مئی 2019 کا حکم پڑھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کو ‘مسحور کن’شہر بنائیں گے، وزیراعلیٰ کا 7 ارب کی نئی اسکیموں کا اعلان

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے پتا نہیں کیوں ان لوگوں کو ہمارے سامنے پیش ہونے کے لیے بھیج دیتے ہیں، ان کو کیا معلوم شہر والوں کی کیا ضروریات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ وزیراعلیٰ کو بلائیں ہم ان سے پوچھ لیتے ہیں، ساتھ ہی عدالت نے مراد علی شاہ کو فوری طلب کرلیا۔

سماعت کے دوران کڈنی ہل پارک کی صورتحال سے متعلق چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نئی مسجد کی تعمیرات کا کام ہورہا تھا، جسے رکوا دیا ہے اور رپورٹ جمع کرادی ہے، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کہاں ہے رپورٹ؟ آپ خود گئے تھے وہاں پر؟

چیف جسٹس نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد سے متعلق کمشنر سے مکالمہ کیا کہ اب آپ پر چارج فریم کرکے آپ کو سن لیتے ہیں، آپ کو جیل بھیج دیں گے، آپ کو پتا ہی نہیں ہے شہر کے مسائل کیا ہیں۔

’غیر قانونی تعمیرات کرنے والے 90 فیصد لوگ شہر چھوڑ چکے ہیں‘

عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات موجود ہیں، غیر قانونی تعمیرات کرنے والے 90 فیصد لوگ شہر چھوڑ کر جاچکے ہیں، اب کس کو پکڑیں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بڑے مافیاز ہیں، ایک ایک پلاٹ کئی کئی لوگوں کو الاٹ ہوئے، رفاہی پلاٹوں پر بھی تعمیرات ہوئیں لیکن کوئی روکنے والا نہیں، ایک دن یہ شہر زمین بوس ہوجائے گا اور ایک کروڑ 40 لاکھ لوگ اس دنیا سے چلے جائیں گے۔

کراچی کا ایک فضائی منظر—فائل فوٹو: فیس بک
کراچی کا ایک فضائی منظر—فائل فوٹو: فیس بک

عدالت میں سماعت کے دوران سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈی جی بھی موجود تھے۔

شہر کی حالت سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے عدالت نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو مولوی ہیں، ابھی سے فاتحہ پڑھ لیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ غیر قانونی تعمیرات کی انکوائری کررہا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اب کچھ نہیں کرسکتے، کام کرنے والے ملک چھوڑ کر چلے گئے، آپ کو لوگ بیچ کرکھا گئے ہوں گے، آپ کے جعلی دستخط چل رہے ہوں گے، آج میڈیا سے پتا چلا ہے وزیر نے آپ کو بلڈنگ لینڈ منظور کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتا ہے اگر وزیر کا حکم نہیں مانا تو آپ زیادہ دیر تک عہدے ہر نہیں رہ سکتے۔

عدالتی ریمارکس کے بعد ڈی جی ایس بی سی اے نے جواب دیا کہ اب رفاہی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دے رہے، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ بڑے معصوم لگ رہے ہیں۔

’بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والوں کے ساتھ پورا مافیا ہے‘

دوران سماعت چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ لیاری سے لے کر ہائی وے تک کہاں، کہاں غیر قانونی تعمیرات گرائیں گے، کیا آپ نے بحریہ ٹاؤن دیکھا ہے، بحریہ ٹاؤن کو پورا ایک نیا شہر بنادیا گیا ہے، آپ سے بحریہ ٹاؤن میں کتنے گھروں کی اجازت لی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی والے کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا خمیازہ بھگت رہے، ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے غیر قانونی تعمیرات گرانے سے غریب لوگوں کے گھر جائیں گے، ان غریب لوگوں نے بھی پیسے دیے ہوں گے،اس پر ڈی جی نے کہا کہ پہلے معاملے کی انکوائری ہوگی، اس معاملے میں سندھ حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا، کس کمزور حمایت کا آپ نے ذکر کردیا، آپ کے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والوں کے ساتھ پورا مافیا ہے، آئی آئی چندریگر روڈ، بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ) اور اطراف کی گلیوں تک بھی غیر قانونی عمارتیں قائم ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس 4 سال سے چلارہے ہیں، اب تک کچھ نہیں ہوا، ایک منزلہ عمارت کی اجازت پر کثیرالمنزلہ عمارت کھڑی کی جاری ہیں۔

وزیراعلیٰ عدالت میں پیش

بعد ازاں عدالت کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ عدالت میں پیش ہوئے اور عملدرآمد رپورٹ پیش نہ کرنے پر معذرت کی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھے 2 ہفتوں کی مہلت دے دیں تو تفصیلی رپورٹ پیش کردوں گا، جس پر عدالت نے پوچھا کہ بس اتنا بتا دیں عدالتی حکم پر کیا عمل درآمد کیا ہے۔

اسی دوران ایڈووکیٹ جنرل کو گزشتہ حکم پڑھ کر سنایا گیا، جس کے بعد عدالت نے پوچھا کہ حکومت نے اس پر کیا عمل درآمد کیا ہے۔

مراد علی شاہ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے—تصویر: ٹوئٹر
مراد علی شاہ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے—تصویر: ٹوئٹر

جس پر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ میئر کراچی کو بلدیاتی قانون 2013 کے مطابق تمام اختیارات دے دیے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسے چھوڑدیں،عدالتی حکم پر بتائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کے ڈی اے، کے ایم سی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آپ کے محکمے ہیں، انہوں نے کیا کیا ہے؟ جو حکم نامہ ہے اس پر کچھ نہیں نظر آ رہا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے تجاوزات سے متعلق پوچھا کہ اس بارے میں بتائیں کہ کیا کیا، جس پر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ جب میں وزیراعلیٰ بنا اس وقت سب سے پہلے وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر سے بیریئر ہٹوا دیے، 5 اسٹار ہوٹل کے فٹ پاتھ خالی کروا دیے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان پر قبضہ ہو۔

ساتھ ہی مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ میں وکیل نہیں ہوں، لہٰذا اگر کوئی بات ڈیکورم کے مطابق نہ ہو تو معاف کردیجئے گا۔

اس موقع پر بیریئر ہٹانے والی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آپ کی سیکیورٹی کے لیے تھے، اس سے ہمارا کیا تعلق ہے، جس پر مراد علی شاہ کا کہا کنا تھا کہ مجھے آپ سے اتفاق ہے، اس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ اتفاق نہ بولیں۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے شہریوں کے لیے فٹ پاتھوں کو صاف کرایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میئر کے پاس تجاوزات کے خاتمہ کی ذمہ داری تھی، انہوں نے نہیں کیا، ہم نے کابینہ کی منظوری سے آپ کے حکم پر عمل درآمد کرایا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے احکامات ہیں عدالت کا حکم تھا۔

اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ عدالتی زبان نہیں آتی مجھے جس پر میں معذرت خواہ ہوں۔

’سارا شہر گاؤں میں تبدیل ہوگیا ہے’

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایک چیز بتادیں کہ کراچی کی بہتری اوراس کی اصل شکل میں بحالی کے لیے کی؟ جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ شاہراہ فیصل پر کام کیا ہے، اسے چوڑا کردیا ہے، طارق روڈ، شاہراہ قائدین سمیت یونیورسٹی روڈ بھی بنائے ہیں۔

مراد علی شاہ نے بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ 2007 کی بارشوں میں 200 اموات ہوئیں جبکہ 2010 میں 50 ہوئیں، ان واقعات کے بعد بارشوں سے نمٹنے کا نظام بہتر کرنے کی کوشش کی، اس پر عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ کو کہا کہ آپ اصل مدے پر نہیں آ رہے ایک تحریری رپورٹ پیش کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شاہراہ فیصل کی صورتحال اچھی نہیں ہے، سڑک ’بمپی‘ بنی ہوئی ہے، مٹی اور کچرا پڑا ہے جبکہ درخت بھی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہری تو گاؤں میں رہتے ہیں سارا شہر گاؤں میں تبدیل ہوگیا ہے، نہ سڑکیں ہیں، نہ پانی ہے، نہ پارک ہیں اور ہی میدان، کچھ بھی نہیں ہے، جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم شجرکاری کر رہے ہیں اور سڑکوں کو وسعت دے رہے ہیں، اہم شاہراہوں پر کام کیا گیا ہے کئی مقامات ہر کام جاری ہے۔

’زمینی حقائق یہی ہیں کہ کچھ نہیں ہوا’

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ زمینی حقائق یہی ہیں کہ کچھ نہیں ہوا، جس پر مراد علی شاہ کہا کہ کچھ مہلت مل جائے تو عمل درآمد رپورٹ پیش کردیں گے، جس پر عدالت نے اپنے حکم پر علمدرآمد کرکے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

اسی دوران چیف جسٹس نے سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے حوالے سے خبر لگی ہے کہ عمارتیں بنانے کی اجازت دے رہے ہیں، آپ نے ڈی جی بلڈنگ کو تمام عمارتوں کی منظوری کی ہدایت کی ہے۔

جس پر ناصر حسین شاہ نے کہا کہ کوئی غلط بلڈنگ پلان منظور نہیں ہوگا، جہاں قانونی اجازت ہے وہی عمارت بنے گی، کسی کو غیرقانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دیں گے آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شہر میں خالی جگہ کہاں ہے، جو عمارتیں بنے گی، ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے عمارتیں گرانے کا وعدہ کیا ہے، اب ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جہاد کرنے نکل رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے حکم پر یہ ایس بی سی اے والا بابا ویسے ہی کانپ رہا ہے وہ کیا کرے گا، جس پر ناصر شاہ نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق کام ہوگا۔

کڈنی ہل پارک سے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم

شہر قائد کے مختلف مسائل کے حوالے سے سماعت کے دوران عدالت نے کڈنی ہل پارک سے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم دے دیا اور کہا کہ مذکورہ زمین سے تجاوزات ختم کراکر کل تک رپورٹ دیں۔

عدالت نے کڈنی ہل پارک سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا—فائل تصور: فیس بک
عدالت نے کڈنی ہل پارک سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا—فائل تصور: فیس بک

اس پر وکیل میونسپل کمشنر نے کہا کہ پارک کی زمین پر گھر بنے ہوئے ہیں، کل تک رپورٹ پیش کرنا مشکل ہے، آئندہ سیشن تک رپورٹ پیش کرنے کی مہلت دی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل تک آپ ابتدائی رپورٹ دے دیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ چیف میونسپل کمشنر کے مطابق کڈنی ہل پارک کی ساڑھے 7 ایکڑ زمین پر قبضہ ہے، پارک کی زمین پر کوئی اسکول وغیرہ، کچھ نہیں بن سکتا۔

گرین لائن منصوبہ

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شروع کیے گئے گرین لائن بس منصوبے کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔

اس موقع حکام نے بتایا کہ گرین لائن بس سروس منصوبہ جون 2021 تک مکمل ہوجائے گا، جس پر عدالت نے کہا کہ جون 2021 تک سروس چلا کر رپورٹ پیش کریں۔

ساتھ ہی عدالت نے نمائش چورنگی پر کے جی اے کی زمین پر گرین لائن سروس بنانے کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کردیے۔

ایئرپورٹ کی خالی زمین پر پارک بناکر رپورٹ پیش کرنا کا حکم

کراچی کے مختلف معاملات پر سماعت کے دوران جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی زمین سے متعلق بھی معاملہ آیا۔

عدالت نے کہا کہ ڈی جی سول ایوی ایشن نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ائیر پورٹ کی خالی زمین پر پارک بنائے جائیں گے، اس حوالے سے عمل درآمد رپورٹ بھی پیش کی جائے۔

جس پر سول ایوی ایشن حکام نے بتایا کہ زمین پر پارک 14 اگست 2021 تک مکمل ہوجائے گا، اس پر عدالت نے 14 اگست 2021 تک پارک مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایئرپورٹ کے سامنے دی فرانس ہوٹل ہوا کرتا تھا جو پچاس سال سے ویران پڑا ہے، انہوں نے ساتھ ہی سول ایوی ایشن حکام سے پوچھا کہ آپ نے ایئرپورٹ کے ہوٹلوں کی صورتحال دیکھی ہے، اس کے جواب میں سول ایوی ایشن حکام نے کہا کہ پہلے سے اب کچھ بہتر ہے۔

’ریلوے کی ساری زمین پر پیٹرول پمپ بنا دیے گئے ہیں‘

دوران سماعت ریلوے کی زمین پر حیات ریجنسی ہوٹل کی تعمیر کا معاملہ بھی آیا، جس پر سیکریٹری ریلوے و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ حیات ریجنسی کی عمارت کے کرائے کا تخمینہ 4 کروڑ 60 لاکھ روپے لگایا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کی زمین 4 کروڑ 60 روپے میں دے دی، باقی بھی اونے پونے بیچ دیں، ویسے آپ کو اختیار ہی نہیں یہ سب کرنے کا۔

عدالت نے کے سی آر کو مقررہ وقت پر بحال کرنے کا حکم دیا—فائل فوٹو: ہیرالڈ
عدالت نے کے سی آر کو مقررہ وقت پر بحال کرنے کا حکم دیا—فائل فوٹو: ہیرالڈ

اس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 5 سال سے زیادہ ریلوے کی زمین لیز پر نہیں دے سکتے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حیات ریجنسی ہوٹل کی جگہ ریلوے کا ہیڈآفس وغیرہ بنائیں۔

ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ کالا پل کے مقام پر پارک کا کیا ہوا، جس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ کالا پل پارک کی 4 دیواری بنادی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کام نہیں ہوا، آج صبح دیکھ کر آیا ہوں۔

عدالتی ریمارکس پر ریلوے حکام نے کہا کہ اس حوالے سے نیسپاک کو اسائمنٹ دے دیا ہے، ڈیزائن دوبارہ بنوالیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں کیا ریلوے کے پاس زیادہ پیسے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کی ساری زمین پر پیٹرول پمپ بنا دیے گئے ہیں،اس پر ریلوے حکام نے جواب دیا کہ ‎2010 کے بعد کوئی پیٹرول پمپ نہیں بنا، لوگ ریلوے لائن کے اطراف کچرا پھینک دیتے ہیں، اطراف کی آبادیوں کا سیوریج، کچرا ریلوے لائن پر پھینک دیا جاتا ہے۔

اس موقع پرعدالت نے حیات ریجنسی کی زمین کو ریلوے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے ایک ماہ میں حیات ریجنسی کی زمین سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

اس دوران حیات ریجسنی کے وکیل نے کہا کہ ہمیں 5 منٹ سن لیا جائے، جس پر عدالت نے کہا کہ معاملہ کابینہ میں جارہا ہے، ہم نہیں سن سکتے۔

کمشنر کراچی کو تجوری ہائٹس تحویل میں لینے کا حکم

ریلوے اراضی سے متعلق ہی معاملے کے دوران گیلانی ریلوے اسٹیشن کی مبینہ زمین پر تعمیرات کے تنازع پر ریلوے وکیل نے کہا کہ زمین پر تجوری ہائٹس تعمیر کردی گئی ہے۔

وکیل ریلوے نے کہا کہ اس منصوبے میں 40 افراد کو فلیٹس بھی دے دیے گئے ہیں، ریلوے کی زمین کے غیر قانونی دستاویزات بنادیے گئے ہیں، جس پر تجوری ہائٹس کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ یہ ریلوے کی زمین نہیں ہے۔

اس موقع پر عدالت میں دلائل کے دوران چیف جسٹس اور تجوری ہائٹس کے وکیل رضا ربانی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

چیف جسٹس نے رضا ربانی سے کہا کہ آپ بار بار کیوں مداخلت کررہے ہیں، کیا آپ پارٹی سے وعدہ کرکے آئے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میرے بارے میں آپ اس طرح نہیں کہہ سکتے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مت بھولیں کہ اس وقت آپ عدالت کی معاونت کررہے ہیں، جس پر رضا ربانی نے کہا کہ میں عدالت کی ہی معاونت کر رہا ہوں، میری ذات پر آپ بات نہیں کرسکتے، مجھے اس کیس میں سنیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ ہمارے پاس دستاویزات ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ دستاویزات کیسے بنتی ہیں۔

اس پر عدالت نے کمشنر کراچی کو تجوری ہائٹس تحویل میں لینے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ میں جو سول سوٹ زیر سماعت ہے پر اس پر کارروائی چلتی رہے گی۔

کے سی آر مقرر وقت پر بحال کرنے کا حکم

عدالت میں سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق بھی معاملہ زیر غور آیا، جہاں سیکریٹری ریلوے نے رپورٹ پیش کی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے نئے وزیر نے کہا ہے کہ پرانے نظام پر ریلوے نہیں چل سکتی، آپ لوگوں نے شہروں میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز کیوں نہیں بنائے؟ کیا کے سی آر کیلئے انڈر پاسز بن رہے ہیں؟۔

کے سی آر کو نومبر میں جزوی بحال کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
کے سی آر کو نومبر میں جزوی بحال کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

جس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ کے سی آر کے لیے عدالت کی مدد کی ضرورت ہے ورنہ روز حادثات ہوں گے، زمینیں واگزار کرانا اور گزرگاہوں کو کلیئر کرانا بڑا مسئلہ ہے، ری لوکیشن (متاثرین کی بحالی) کا مسئلہ ہے اس پر بھی حکم جاری کردیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں آپ لوگوں نے ہی بٹھایا ہے اور غیرقانونی الاٹمنٹ آپ نے کی ہے، قبضہ کرنے والوں کو کیوں کہیں جگہ دی جائے۔

بعد ازاں عدالت نے کراچی سرکلر ریلوے کی زمین واگراز کرانے کے لیے فوری کارروائی کا حکم دے دیا، ساتھ ہی قبضہ ختم کرانے کے لیے رینجرز اور پولیس سے مدد لینے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو مکمل تعاون کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کی زمین ریلوے کیلئے استعمال ہوسکتی ہے۔

عدالت میں دوران سماعت ڈی ایس ریلوے نے بتایا کہ لوکل ٹرین چل گئی ہے، بہت اچھا رسپانس ملا ہے، ورک آرڈر کے لیے حکومت سندھ کو پلان دے دیا ہے۔

اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ورک آرڈر جاری ہوچکا ہے، انڈر پاسز اور فلائی اوورز کے لیے ٹھیکہ دیا جاچکا ہے، عدالتی حکم کے مطابق ایف ڈبلیو او کو تعمیرات کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

اس موقع پر سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ کے سی آر کا 70 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، یہ ماڈل ماس ٹرانزٹ پروگرام بنے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں کو خواب دکھاتے رہیں، جب بن جائے گا تو دیکھیں گے کہ کتنا عمل ہوا۔

علاوہ ازیں عدالت نے کے سی آر کو مقررہ مدت میں چلانے کا حکم دیا اور کہا کہ مقررہ مدت میں تکمیل نہ ہونے پر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی ہوگی۔

ساتھ ہی عدالت نے ایک ماہ میں ڈی جی ریلوے کو پیش رفت رپورٹ سمیت پیش ہونے کا حکم بھی دے دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں