ایم کیو ایم اپنے ہی گرداب میں
ایم کیو ایم نے صدارتی انتخابات میں پی ایم ایل ن کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور ممکن ہے کہ پارٹی آنیوالے دنوں میں وفاقی حکومت میں شامل بھی ہو جائے- کیا یہ سن کر کسی کو تعجب ہوا؟ بالکل نہیں- اس سے پہلے بھی ہم نے کئی بار یہ سب ہوتے دیکھا ہے-
ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر آمد، اسلام آباد میں موجود کسی بھی حکومت کیلئے پارٹی کی حمایت جیتنے کے لئے کافی ہے- لیکن یہ سب شائد اتنا زیادہ آسان بھی نہیں ہے- خاص طور پران دو پرانے حریفوں کے درمیان یہ حالیہ میل ملاپ کی کوششیں-
ایم کیو ایم کی یہ موجودہ حکمت عملی، محض ایک سیاسی موقع پرستی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے پارٹی کی موجودہ مشکل صورت حال ہے جس کی وہ خود ہی کسی حد تک ذمہ دار ہے-
پارٹی کی اعلی ترین قیادت عرصے سے ایک مستقل جلاوطنی اختیار کئے ہوئے ہے اور پارٹی اپنے ہر فیصلے کیلئے مکمل طور پر آزاد نہیں ہے- گزشتہ چند سالوں میں پارٹی کے تمام نہیں تو زیادہ ترسیاسی فیصلے اسی مشکل صورت حال کے عکاس ہیں کہ جوقیادت کے دور ہونے کے نتیجے میں ایم کیوایم کو درپیش ہیں- اور پی ایم ایل ن کی جانب یہ تازہ ترین گرم جوشیاں ان ہی الجھے ہوئے حالات کی شاہد ہیں جن میں آجکل ایم کیو ایم پھنسی ہوئی ہے-
ایم کیو ایم کے ایک رہنما سے میری ملاقات ممنون حسین کی صدارت کے عہد ے کیلئے حمایت کے اعلان سے ایک رات پہلے ہوئی- انہوں نے مجھ سے کہا کہ برطانوی حکومت نے ان کو حکومت کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا اور ظاہر ہے پارٹی ان کو نہ نہیں کہہ سکتی تھی اورانہوں نے مزید کہا کہ برطانوی حکومت کا "دوستانہ مشورہ" کوئی پہلی مرتبہ نہیں تھا-
پی پی پی کے پانچ سالہ دور حکومت میں ایم کیو ایم نے کم از کم آدھی درجن مرتبہ اتحادی حکومت کو چھوڑا پر صرف چند دنوں کے بعد واپسی کیلئے- بہت سے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے ذاتی خیال میں پارٹی کی اس حکمت عملی سے اپنے حمایتیوں کی نظرمیں پارٹی کی ساکھ مجروح ہوئی ہے-
پارٹی کے ذرائع کے مطابق، زیادہ ترمواقع پر، اس طرح کی واپسی کی وجہ پاکستان اور لندن سے برطانوی افسروں کی مداخلت ہوتی تھی- پاکستانی سیاست میں برطانیہ کی گہری دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے- سینئربرطانوی سفارت کاروں کا مشرف کی فوجی حکومت اور پی پی پی کے درمیان مصالحت میں ایک نمایاں رول رہا ہے- اس میں بھی بظاہرانہی کا اہم رول تھا کہ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے اس اقدام کی حمایت کی کہ پرویز مشرف کوحکومت چھوڑنے پر مجبور کریں-
1999 کے فوجی انقلاب کے بعد ایم کیوایم مشرف کی فوجی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہوئی تھی- اس اتحاد کی وجہ سے ایم کیو ایم اپنا کھویا ہوا سیاسی وقار دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جو پچھلی حکومتوں کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کانتیجہ تھا- پارٹی کیلئے اپنے بااعتماد ساتھی کودھوکہ دینے میں ہچکچاہٹ سمجھ میں آنے والی بات ہے حالانکہ ان کا زوال سامنے نظر آرہا تھا لیکن پارٹی کی اہم انتخابی حمایت، زرداری کی صدارتی کامیابی کیلئے بہت ضروری تھی-
مسٹر زرداری کے ایک با اعتماد ساتھی جو لندن میں تھے، انہوں نے برطانوی دفتر خارجہ کے ذریعہ ایم کیوایم پر دباؤ ڈلوایا کہ وہ زرداری کی حمایت کریں اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے- اب ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر برطانوی مداخلت پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے کام آ گئی ہے- ایم کیو ایم کیلئے یہ تحفظ کی ضمانت ہے-
یقیناً یہ تازہ ترین صورت حال ایسے وقت پر رونما ہوئی ہے جب ایم کیو ایم مشکل حالات سے دوچار ہے- ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں لندن میں پارٹی آفس پر پولیس کا چھاپہ، یقینا پارٹی کی لیڈرشپ کیلئے پریشانی کا باعث ہے-
اس سے زیادہ پریشانی کی وجہ وہ لاکھوں پونڈ ہیں جوان گھروں سے برآمد ہوئے ہیں جو پارٹی کی ملکیت ہیں-
گزشتہ مہینے جو ٹیلیفونک خطاب ایم کیو ایم کے قائد نے پاکستان میں اپنے حامیوں سے کیا تھا اس سے حالات کی نزاکت اور پیچیدگی کا پتہ چلتا ہے- اگرمنی لانڈرنگ کا الزام عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے توایم کیو ایم کے قائد کیلئے کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں- 1985 میں ایم کیو ایم کے قیام کے بعد پارٹی نے کافی مشکل حالات کا بھی سامنا کیا ہے-
1992 کے فوجی اپریشن نے پارٹی کو تقسیم کر دیا اور الطاف حسین اور متعدد دوسرے پارٹی ممبران کو ملک سے بھاگ کر برطانیہ اور امریکہ میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور کر دیا-
تین سال بعد ایک اورآپریشن نے پارٹی کےسخت گیرعناصر کو تقریبا ختم کر دیا- اس وقت سے الطاف حسین پارٹی کو لندن سے چلا رہے ہیں- اگرچہ کہ پارٹی 1999 کے فوجی انقلاب کے بعد اقتدار کی راہداریوں میں واپس آگئی تھی لیکن ایم کیو ایم کے معاملات کو چلانے کا سرچشمہ لندن ہی رہا-
پاکستان کے بہت سے سیاسی رہنما لندن میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے ہیں- لیکن الطاف حسین وہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے وہاں کی شہریت حاصل کی ہے- ایم کیو ایم کے قائد اعلیٰ کا پاکستان واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے- برطانیہ اب ان کی مستقل رہائیش گاہ بن چکا ہے- یہی صورت حال تنظیم پر برطانوی حکومت کے دباؤ کی وجہ ہے-
جس تیزی سے ایم کیو ایم اپنے اتحادی بدلتی ہے اس جماعت کی ساکھ کے بارے میں، جو ملک کی طاقتورترین جماعتوں میں شمار ہوتی ہے اور جو شہری متوسط طبقہ کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے، سوالات پیدا ہوتے ہیں- اگرچہ اس کے حمایتی صرف سندھ تک محدود ہیں، یہ ملک کی ہر مخلوط حکومت کا اہم حصّہ رہی ہے-
ایم کیو ایم کی سیاست پر صرف بیرونی دباؤ ہی اثرانداز نہیں ہوتا ہے، بلکہ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدم تحفظ کا ایک گہرا احساس پارٹی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستانی سیکورٹی ایسٹیبلشمنٹ کا دایاں بازو بنی رہے- یہی وجہ ہے کہ پارٹی، مشرف کی فوجی حکومت کی سخت حمایتی رہی-
مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ تین دہائیوں پہلے، ایم کیو ایم کو اسکے آغاز ہی سے انٹلیجنس ایجنسیوں نے منتخب حکومتوں کو کمزور بنانے کیلئے استعمال کیا- لیکن ایسا وقت بھی آیا کہ انہیں ایجنسیوں نے بے رحمی سے ان کو اپنا نشانہ بھی بنایا- پارٹی کی اس طاقت سے، کہ یہ ملک کی معاشی اورمالیاتی شہ رگ کو تشدد کی کارروائیوں کے ذریعہ جامد کرسکتی ہے، سیکورٹی ایسٹیبلشمنٹ نالاں ہے- یہی وجہ ہے کہ تمام حکومتیں ایم کیو ایم کو اپنی حکومت کے اندررکھنا چاہتی ہیں، باہر نہیں-
کسی اور پارٹی میں ایسا تضاد موجود نہیں جیسا کہ ایم کیو ایم میں ہے- یہ اپنے دعویٰ میں حق بجانب ہے کہ یہ ملک میں متوسط طبقہ کی نمائندہ واحد جماعت ہے جو لبرل اور سیکولر نظریات کی حامل ہے اوراسکی سیاست خاندانی سیاست سے مبرا ہے- لیکن جب فیصلہ کرنے کا وقت اتا ہے تو اسکا اختیار محض ایک فرد کو ہے- لیکن اب جب کہ اس کا رہنما زیر عتاب ہے تو پارٹی کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری