چین کے ادارے سینوفارم کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین اس بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے 79.34 فیصد تک موثر ہے۔

یہ بات کمپنی کی جانب سے جاری عبوری تجزیے میں بتائی گئی۔

تجزیے میں بتایا گیا کہ یہ ویکسین محفوظ ہے اور جن افراد کو اس کے 2 ڈوز استعمال کرائے گئے، ان میں وائرس کے خلاف 99.52 فیصد اینٹی باڈیز کی سطح پیدا ہوئی۔

یہ رپورٹ کمپنی کے لیے ویکسین تیار کرنے والے بیجنگ انسٹیٹوٹ آف بائیولوجیکل پراڈکٹس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی، جس کی جانب سے ویکسین کے استعمال کی منظوری کے لیے چین کے ریگولیٹرز کو جمع کرادی گئی ہے۔

تجزیے میں ویکسین کے حوالے سے بہت کم تفصیلات دی گئی ہیں، جیسے ٹرائل میں شامل افراد کی تعداد کتنی ہے یا کس ملک میں ہونے والے ٹرائل کے ڈیٹا کو جاری کیا گیا ہے۔

اس ویکسین کی انسانوں پر آزمائش متعدد ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن، پیرو اور ارجنٹائن میں جاری ہے۔

9 دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے حکام نے بتایا تھا کہ یہ ویکسین آخری مرحلے کے ابتدائی تجزیے میں بیماری کو روکنے میں 86 فیصد تک موثر ہے۔

اس ویکسین کو متحدہ عرب امارات اور بحرین میں پہلے ہی استعمال کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے۔

چین میں اس ویکسین کا استعمال رواں سال جولائی سے ہنگامی استعمال کے پروگرام کے تحت ہورہا ہے۔

چین کے طبی حکام نے دسمبر میں بتایا تھا کہ ان کی جانب سے ٹرائل کے آخری مراحل میں داخل ہوجانے والی ویکسینز کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے اور نتائج اس وقت جاری کیے جائیں جب ٹرائلز مکمل ہوجائیں گے۔

سینوفارم کی ایک اور ویکسین اس کے ایک اور ذیلی ادارے ووہان انسٹیٹوٹ آف بائیولوجیکل پراڈکٹس کی جانب سے بھی تیار کی جارہی ہے، جس کے نتائج ابھی تک جاری نہیں ہوئے۔

چین کی ایک اور کمپنی سینوویک کی کووڈ ویکسین کا ٹرائل برازیل، ترکی اور انڈونیشیا میں جاری ہے اور اس کی جانب سے تفصیلی نتائج کی اشاعت کو اگلے ماہ تک التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔

تاہم ترکی کی جانب سے گزشتہ ہفتے اس ویکسین کے ٹرائل کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ ویکسین 91.25 فیصد تک موثر ہے، مگر یہ ایک چھوٹے کلینکل ٹرائل کے ابتدائی نتائج ہیں اور ڈیٹا کو اب تک کسی طبی جریدے پر شائع نہیں کیا گیا۔

شنگھائی سے تعلق رکھنے والے ایک ویکسین ماہر ٹاؤ لینا نے بتایا کہ بیجنگ انسٹیٹوٹ ویکسین کی تیاری کے لیے روایتی طریقہ کار کو اپنایا گیا، یعنی ناکارہ کورونا وائرس کو استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افادیت کے نتائج اس طریقہ کار کے تحت تیار ہونے والی دیگر ویکسینز جیسے پولیو یا ہیپاٹائٹس اے ویکسینز سے کم ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک نئے وائرس کے خلاف اتنی افادیت بری نہیں اور وقت کے ساتھ اس کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا 'آغاز میں ہمارا خیال تھا کہ 70 فیصد افادیت والی ایک ویکسین بہترین ثابت ہوگی، مگر موڈرینا اور فائزر نے اپنی ویکسینز کی افادیت اتنی زیادہ بتائی ہے، کہ 70 فیصد شرح کچھ لوگوں کے لیے مایوس کن ہوسکتی ہے، دونوں ایم آر این اے ویکسینز کو وائرس کے خلاف 94 فیصد سے زیادہ موثر قرار دیا گیا'۔

ان کے بقول 'یہ ٹیکنالوجی کا فرق ہے ، جس کا مطلب ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز روایتی ویکسینز سے زیادہ موثر ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ سینوفارم کی ویکسین کی افادیت منظوری کے لیے درکار شرح سے زیادہ ہے اور محفوظ ہونے کا بہترین ڈیٹا بھی ایک اہم پہلو ہے، جس کا خیال مختلف ویکسینز کی جانچ پڑتال کے دوران رکھا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا 'اب تک شائع ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ناکارہ وائرس والی کووڈ ویکسینز کے استعمال کے مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں'۔

بیجنگ انسٹیٹوٹ کی ملکیت رکھنے والے ایسیٹس سپرویژن اینڈ ایڈمنسٹریشن کمیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ویکسینز کی جانچ پڑتال افادیت کے سنگل پیمانے کی بجائے مجموعی کارکردگی کے تحت کی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ ہنگامی استعمال کے لیے ویکسینز کی منظوری اسی وقت دی جائے گی جب لوگوں کے اندر اینٹی باڈیز کی سطح اتنی زیادہ پیدا ہو جو بیماری کی روک تھام کرسکے۔

بیان کے مطابق سینوفارم ویکسین کو روایتی ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے ساتھ زیادہ پروڈکشن گنجائش کا فائدہ حاصل ہے، یعنی اس کو 2 سے 8 ڈگری درجہ حرارت میں ٹرانسپورٹ کیا جاسکتا ہے اور 24 ماہ تک اس کی حالت مستحکم رہتی ہے۔

اس کے لیے جو کولڈ اسٹوریج سہولیات درکار ہیں وہ پہلے ہی بیشتر ممالک میں موجود ہیں۔

بیان کے مطابق ووہان اور بیجنگ میں سینوفارم کے 2 مراکز اگلے سال تک ویکسین کے ایک ارب ڈوز تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں