اسامہ قتل کیس: اے ٹی ایس کے 5 اہلکاروں کا 3 روزہ ریمانڈ منظور

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2021
والد کے مطابق گاڑی پر 17 گولیاں فائر کی گئیں— تصویر: شکیل قرار
والد کے مطابق گاڑی پر 17 گولیاں فائر کی گئیں— تصویر: شکیل قرار

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان کے قتل میں گرفتار انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے 5 اہلکاروں کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔

سی ٹی ڈی کے گرفتار 5 اہلکاروں کو سخت سیکیورٹی میں جوڈیشل مجسٹریٹ نوید خان کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

مزیدپڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج

واضح رہے کہ 2 جنوری کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک 22 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا تھا جس کے بعد پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 5 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فائر ہونے والی پستول برآمد ہوئی؟

جس پر پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ جس پستول سے فائر ہوا وہ بھی برآمد نہیں ہوا۔

ولیس نے عدالت سے ملزمان کے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

اس پر عدالت نے ملزمان کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔۔

مزیدپڑھیں: اسلام آباد میں دو علیحدہ واقعات میں جرمن شہری اور فوجی قتل

ڈان کی رپورٹ کے مطابق رات گئے ہونے والی پیشرفت میں چیف کمشنر نے واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔

اس سلسلے میں جاری کردہ ایک آرڈر میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں انٹلی جنس، ملٹری انٹلی جنس، انٹلی جنس بیورو ، ایس ڈی پی او رمنا سرکل کے نمائندے اور ڈی ایس پی انوسٹی گیشن شامل ہیں۔

شہریار آفریدی اور شیخ رشید کی مقتول کے اہلخانہ سے ملاقات

دوسری جانب شہریار آفریدی اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی مقتول اسامہ ستّی کے گھر جاکر مرحوم کے لواحقین سے تعزیت کی۔

اس موقع پر شیخ رشید احمد کی جانب سے مکمل انصاف فراہم کیے جانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔

شیخ رشید نے 22 سالہ اسامہ کے والدین کو یقینی دہانی کرائی کہ قانون میں گنجائش ہوئی تو ہائی کورٹ کے جج سے بھی انکوائری کرائی جائے گی۔

طلبہ و سول سوسائٹی کا احتجاجی مظاہرہ

علاوہ ازیں اے ٹی ایس کے اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان طالبعلم اسامہ کے قتل کے خلاف نیشنل پریس کلب کے باہر طلبہ و سول سوسائٹی نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرے میں مقتول کے لواحقین بھی شریک تھے۔

مظاہرین نے کہا کہ بغیر کسی الزام کے نوجوان کا ناحق قتل کیا گیا اور پولیس کا کام تحفظ فراہم کرنا ہے ناکہ معصوم شہریوں پر گولیاں برسائی جائیں۔

مزیدپڑھیں: کراچی: گھروں میں ڈکیتی، مزاحمت پر خاتون ڈاکٹر اور پولیس افسر کا گارڈ قتل

مظاہرے میں شامل ایک شخص نے کہا کہ پولیس ٹریننگ کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے پولیس پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوشش کرے گی۔

مظاہرین نے اسلام آباد میں روز بروز بڑھتی واردات بشمول قتل، ڈکیتی پر پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھایا۔

واقعہ کا پس منظر

2 جنوری کو اے ٹی ایس پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک 22 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا تھا جس کے بعد پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 5 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس ضمن میں ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا تھا کہ پولیس کو رات کو کال موصول ہوئی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کررہے ہیں۔

جس کے بعد علاقہ میں گشت پر معمور اے ٹی ایس پولیس اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کا جی-10 تک گاڑی کا تعاقب کیا، تاہم اس کے نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے جس میں سے 2 فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے اور اس کی موت واقع ہوگئی۔

دوسری جانب نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیاجس میں دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی۔

مذکورہ مقدمے میں مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفیٰ، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا۔

نوجوان کے والد ندیم یونس ستی نے مقدمے میں مؤقف اپنایا کہ میرا جواں سالہ بیٹا اسامہ ندیم ستی میرے ساتھ جی-10 مرکز میں کاروبار کرتا تھا اور وہ 2 جنوری کی رات تقریباً 2 بجے اپنے دوست کو ایچ-11 نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا تو مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد نامی پولیس اہلکاروں جن سے ایک دن قبل میرے بیٹے کی تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا، جس کا ذکر میرے بیٹے نے مجھ سے کیا تھا۔

والد نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس کے ان ملازمین نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے۔

انہوں نے کہا پولیس اہلکاروں نے مرکزی شاہراہ پر گاڑی پر 17 گولیاں چاروں اطراف سے چلائیں جس سے میرے بیٹے کی جان چلی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں