برطانوی جج نے جولین اسانج کی حوالگی کی امریکی درخواست مسترد کردی

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2021
جولین اسانج کے حامیوں نے عدالت کے باہر احتجاج کیا — فوٹو: رائٹرز
جولین اسانج کے حامیوں نے عدالت کے باہر احتجاج کیا — فوٹو: رائٹرز

برطانیہ کے ایک جج نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے سے متعلق درخواست مسترد کردی۔

غیرملکی خبررساں ادارے ‘اے پی‘ کے مطابق برطانوی جج نے جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنے والے جولین اسانج کی حوالگی کے حوالے سے واشنگٹن کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔

مزیدپڑھیں: جولین اسانج بمقابلہ امریکی حکومت: کون کس پر حاوی رہے گا؟

ڈسٹرکٹ جج وینیسا بارائٹسر نے کہا کہ اگر امریکا بھیج دیا گیا تو جولین اسانج خودکشی کرسکتے ہیں اور انہیں امریکا کے حوالے کرنے سے ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امریکی حکومت نے کہا کہ وہ اس فیصلے پر اپیل کرے گی۔

امریکی استغاثہ نے ایک دہائی قبل وکی لیکس کی جانب سے شائع ہونے والی فوجی اور سفارتی دستاویزات کی اشاعت پر جاسوسی کے 17 الزامات اور کمپیوٹر غلط استعمال کا ایک الزام عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 50 ہفتے کی قید

ان الزامات میں زیادہ سے زیادہ 175 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

49 سالہ جولین اسانج کے وکلا کا مؤقف ہے کہ جولین اسانج ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور وہ ایسی دستاویزات شائع کرنے کے لیے آزادی اظہار رائے کی پہلی ترمیم کے تحفظ کے حقدار ہیں۔

واضح رہے کہ ان دستاویزات میں عراق اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی غلطیوں کو بے نقاب کیا گیا تھا۔

جج نے امریکی وکلا کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ جولین اسانج کو آزادانہ تقریر کے قوانین کے ذریعے تحفظ حاصل ہے اور اگر ان کے طرز عمل متعین حدود میں جرائم کا مرتکب ہوا تو انہیں اظہار رائے کے حق سے تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سفارتخانے سے گرفتار

اس پر خاتون جج نے کہا کہ جولین اسانج کو کلینیکل ڈپریشن کا سامنا ہے جو امریکی جیل میں تنہائی کی وجہ سے بڑھ سکتا ہے۔

جج نے کہا کہ جولین اسانج کے پاس خودکشی سے بچاؤ کے کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے ’عقل اور عزم‘ تھا جسے حکام متاثر کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ نومبر 2010 میں سویڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سویڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔

بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔

جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں