'وزیراعظم نے مشیروں کے مشورے پر کوئٹہ نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا'

09 جنوری 2021
وزیراعظم کی کوئٹہ میں مقتول کان کنوں کے ورثا سے ملاقات کی راہ میں 'سیکیورٹی خدشات' اور 'انا' کو رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے— فوٹو بشکریہ انسٹا گرام
وزیراعظم کی کوئٹہ میں مقتول کان کنوں کے ورثا سے ملاقات کی راہ میں 'سیکیورٹی خدشات' اور 'انا' کو رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے— فوٹو بشکریہ انسٹا گرام

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے دوران ہزارہ برادری کے 11 مقتول کوئلے کے کان کنوں کے غمزدہ کنبوں سے ملنے کی راہ میں 'سیکیورٹی خدشات' اور 'انا' کو رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان کی جانب سے وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں اور کابینہ کے اراکین سے حاصل کردہ پس پردہ معلومات سے انکشاف ہوا ہے کہ وزیر اعظم گزشتہ اتوار کو بلوچستان کے علاقے مچھ میں دہشت گردوں کی جانب سے 11 کوئلے کے کان کنوں کے ذبح کیے جانے کے فوراً بعد کوئٹہ پہنچنا چاہتے تھے لیکن انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اس صورتحال بہتر ہونے تک انتظار کریں۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ: حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ہزارہ برادری کا دھرنا ختم، میتوں کی تدفین کا اعلان

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم کے 'بلیک میلنگ' کے تبصرے کے پیچھے پس منظر میں کچھ وجوہات ہیں کیونکہ حکومت کو یقین ہے کہ ہزارہ کے معصوم عوام نے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ لاشوں کی اسی وقت تدفین کریں گے جب وزیر اعظم ان سے تعزیت کے لیے کوئٹہ آئیں گے بلکہ یہ مطالبہ بنیادی طور پر مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے قائدین کا تھا اور حزب اختلاف نے حساس معاملے پر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے آگ کو بھڑکایا۔

معاونین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا مؤقف تھا کہ ایک بار اگر انہوں نے تدفین سے قبل کوئٹہ جانے کا مطالبہ قبول کرلیا تو یہ ایک مثال بن جائے گی اور جب کسی کو کوئی شکایت ہو گی تو وہ مستقبل میں انہیں بلیک میل کرے گا۔

کوئٹہ نہ جانے کا پہلا مشورہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کابینہ کے اجلاس کے دوران(کوئٹہ میں سوگواروں سے ملاقات کے بعد) دیا تھا، انہوں نے وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ کم سے کم دو دن کوئٹہ جانے سے گریز کریں کیونکہ لاشوں کے ساتھ دھرنا دینے والے مظاہرین کے جذبات بہت زیادہ بھڑکے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم کی وہاں موجودگی میں کوئی بھی 'ناخوشگوار' واقعہ پیش آ سکتا ہے۔

وزیر اعظم کے ایک مشیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'میں اور فواد چوہدری کابینہ کے پہلے دو اراکین تھے جنہوں نے کابینہ کے اجلاس میں شیخ رشید کی رائے کی مخالفت کی اور وزیر اعظم سے کسی تاخیر کے بغیر کوئٹہ کا دورہ کرنے کی اپیل کی'۔

یہ بھی پڑھیں: تدفین کیلئے آمد کی شرط رکھ کر وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا، عمران خان

انہوں نے کہا کہ اس سارے واقعے میں جب ہزارہ افراد کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا جارہا تھا اور حزب اختلاف بھی انہیں 'اکساتا' رہی تھی کہ سب نے اصل قاتلوں کو فراموش کردیا، 'اس صورتحال میں وہ (قاتل) رقص کر رہے ہوں گے کیونکہ ان کا اصل مقصد پورا ہو گیا'۔

وزیر اعظم کے اس بیان پر کہ انہیں (ہزارہ کی جانب سے) 'بلیک میل' نہیں کیا جانا چاہیے، اس سے نئے تنازع نے جنم لیا ہے اور مرکزی دھارے اور سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کی وجہ سے حکومت کے میڈیا منیجروں کے پاس وزیر اعظم کے دفاع کے لیے بہت کم جگہ بچی ہے۔

اندرونی ذرائع کے مطابق ڈھائی سال سے زیادہ کی حکمرانی میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وزیر اعظم کے بیانات کی وجہ سے بہت پریشان دکھائی دیتی ہے۔

میڈیا پر حکومتی ورژن کا مکمل خاتمہ ہوگیا اور وزیر اطلاعات شبلی فراز کا ٹوئٹ وزیر اعظم کی تقریر کے تقریباً 7 گھنٹۓ بعد شام 6 بجے آیا جس میں انہوں نے وزیر اعظم کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیں: 'دلخراش بیان': ہزارہ برادری کو 'بلیک میلر' کہنے پر وزیر اعظم عمران پر تنقید

بعدازاں وزیر اعظم کے دوسرے ترجمان مختلف ٹی وی شوز میں نمودار ہوئے لیکن وہ اس کا مناسب دفاع کرنے میں ناکام رہے کہ وزیر اعظم خان نے ہزارہ برادری سے یہ کیوں کہا کہ وہ انہیں بلیک میل نہ کریں۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے تاثرات پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے لیکن انہیں یقین ہے کہ جلد ہی ہزارہ اور حکومت کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

وزیر اعظم کے ترجمان اور پی ٹی آئی رہنما کنول شوزاب نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہزارہ کو "بلیک میلرز" نہیں کہا تھا بلکہ اس کے بجائے مجلس وحدت مسلمین سمیت ان لوگوں کو کہا تھا جو ہزارہ برادری کو اکسا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے دورے کے سلسلے میں علاقے میں سیکیورٹی خدشات پر بھی غور کیا جارہا ہے جو پہلے ہی دہشت گردی کی گرفت میں تھا، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہزارہ کے رہائشیوں کے اصل شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی بحالی کے مطالبے پر بھی تشویش میں مبتلا تھے جو اصل میں افغانی ہیں اور ان دستاویزات کو غیر قانونی طور پر حاصل کر چکے ہیں، لہٰذا یہ صرف قتل و غارت کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ کچھ دیگر حساس معاملات بھی اس میں شامل ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب وزیر اعظم خان کوئٹہ گئے تو یہ دوسروں کے لیے کسی مسئلے پر انہیں 'بلیک میل' کرنے کی مثال بن جائے گی۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات احمد جواد نے کہا کہ وزیر اعظم کو متعدد مشورے دیتے ہوئے ان سے کوئٹہ کا دورہ نہ کرنے کی اپیل کی گئی، 'پہلا مشورہ شیخ رشید اور پھر دوسروں کے ذریعہ آیا، ایک بار جب فیصلہ لیا گیا تو وزیر اعظم کو اس پر قائم رہنا پڑا'۔

احمد جواد نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور وہ اپنے پچھلے فیصلے پر قائم ہیں جب تک کہ وہاں صورتحال معمول پر نہ آجائے، وزیراعظم کو کوئٹہ کا دورہ نہیں کرنا چاہیے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ ہزارہ برادری کے قتل اور وزیر اعظم کے مؤقف پر حکمراں جماعت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ پارٹی کے کچھ لیڈروں اور کارکنوں نے اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

وزیر اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے ٹوئٹ کی کہ اے بے یار و مدد گار معصوم مزدوروں کی لاشوں۔۔۔میں شرمندہ ہوں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmed Jan 09, 2021 10:44am
بہت سارے افغانیوں کے پاس جعلی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہیں۔ ان کو بلاک اور ان کے خلاف ضرور تحقیق ہونی چاہئے۔ وزیراعظم کو کوئٹہ ضرور جانا چاہیے تھا۔