کوئٹہ: حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ہزارہ برادری کا دھرنا ختم

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2021
مظاہرین 6 روز تک سخت سردی میں بیٹھے رہے—فائل فوٹو: غالب نہاد
مظاہرین 6 روز تک سخت سردی میں بیٹھے رہے—فائل فوٹو: غالب نہاد

بلوچستان کے علاقے مچھ میں 11 کان کنوں کے سفاکانہ قتل کے خلاف ہزارہ برادری کا احتجاجی دھرنا حکومتی ٹیم سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم ہوگیا اور متاثرین کے لواحقین نے میتوں کی تدفین کا اعلان کردیا۔

کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر سخت سردی میں ہونے والے اس احتجاج کا اختتام رات گئے حکومتی ٹیم اور شہدا ایکشن کمیٹی کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد ہوا۔

اس حوالے سے ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2 وفاقی وزرا نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ہمراہ رات گئے کوئٹہ کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرلیے ہیں جبکہ گزشتہ روز دیے گئے وزیراعظم کے بیان پر بھی وضاحت پیش کی۔

مزید پڑھیں: تدفین کیلئے آمد کی شرط رکھ کر وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا، عمران خان

جس کے بعد شہدا ایکشن کمیٹی اور مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے نمائندوں کی جانب سے 6 روز تک جاری رہنے والے دھرنے کے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا اور لواحقین اپنے پیاروں کی میتیں دفنانے پر راضی ہوگئے۔

ساتھ ہی وفاقی کابینہ کے اراکین علی زیدی، زلفی بخالی سمیت وزیراعلیٰ جام کمال اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے لواحقین کو یقین دہانی کرائی کہ وزیراعظم عمران خان کسی بھی وقت ’جلد‘ کوئٹہ آنے کے لیے تیار ہیں جبکہ آپ کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔

متاثرہ خاندانوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ وزیراعظم عمران خان، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہفتے کو کوئٹہ کے دورے کا امکان ہے۔

علاوہ ازیں کوئٹہ میں لواحقین کے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے بعد ایم ڈبلیو ایم نے ملک بھر میں جاری دھرنوں کے ختم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔

جے آئی ٹی کا قیام، ڈی سی، ڈی پی او کی برطرفی

دوسری جانب حکومت کی جانب سے جن مطالبات کو تسلیم کیا گیا ان میں جے آئی ٹی کا قیام، عہدیداروں کی معطلی و دیگر شامل ہے۔

اس حوالے سے سامنے آئی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سانحہ مچھ کی تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان علیانی نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے اور اس سے کہا ہے کہ وہ مچھ کوئٹہ فیلڈ کے مزدوروں کے تحفظ میں غفلت برتنے والے متعلہ محکموں پر ذمہ داری کا تعین کرے۔

اس کے علاوہ انہوں نے کوئلہ مزدوروں کے ڈیٹا بیس کو اکٹھا کرنے اور مزدور قوانین پر عملدرآمد کا بھی حکم دیا، مزید یہ کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) ضلع کچھی کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کردیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر علی زیدی نے دھرنے کے شرکا سے خطاب میں مذاکرات کے کچھ نکات پڑھتے ہوئے پہلے تو افسران پر ذمہ داری کے تعین اور جے آئی ٹی کے قیام کا بتایا تاہم اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اس جے آئی ٹی سے زیادہ ضروری ایک اعلیٰ سطح کمیشن قائم کیا ہے جس کی سربراہی وزیر داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو کریں گے، اس کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کے 2 ارکین، بلوچستان حکومت کے 2 سینئر افسران، ڈی آئی جی رینک کا پولیس افسر اور شہدا کمیٹی کے 2 اراکین شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹی مہینے میں ایک مرتبہ ضروری ملے گی اور تمام پیش رفت کی نگرانی کرے گی اور فیصلے لوگوں کی مشاورت سے ہوں گے۔

علی زیدی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور اس کے قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے جبکہ صوبائی حکومت اور اس کے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکیورٹی پلان کا از سر نو جائزہ لیکر ایک حکمت عملی تیار کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ نادرا، پاسپورٹ آفس اور امیگریشن کی ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس میں شہدا کمیٹی کے 2 اراکین بھی شامل ہوں گے۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان متاثرین کے شرعی وارثوں کو بلوچستان حکومت میں نوکری فراہم کی جائے گی۔

اس موقع پر علی زیدی نے مذاکراتی معاہدے کے علاوہ یہ بھی اعلان کیا کہ متاثرین کے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری ان کی وزارت اٹھائے گی۔

خیال رہے کہ یہ مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مچھ متاثرین کے لواحقین کی جانب سے تدفین کرنے تک دورہ نہ کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آئے۔

یہی نہیں بلکہ صورتحال اس وقت انتہائی خراب دیکھی گئی جب وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران یہ کہا کہ مظاہرین وزیراعظم کو ’بلیک میل‘ نہیں کرسکتے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تدفین سے قبل کوئٹہ کا دورہ کرنا مسقبل میں کسی کی بھی جانب سے وزیراعظم کو بلیک میل کرنے کی مثال قائم کردے گا۔

تاہم وزیراعظم کے اس بیان کے بعد نہ صرف تمام مذہبی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت تنقید سامنے آئی بلکہ سوگواروں کو بھی مشتعل کیا اور کچھ نے موت تک بھوک ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا۔

تقریباً تمام مرکزی مذہبی جماعتوں سوائے کالعدم اہل سنت و الجماعت کی جانب سے عمران خان کو ان کے ’غیرذمہ دارانہ‘ بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ان کی ’ضد‘ قرار دیا۔

تاہم وزیراعظم کے بیان کے بعد وزیر داخلہ نے موجودہ صورتحال پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان کے دورے میں تاخیر اور متعلقہ معلومات اس وقت بیان نہیں کی جاسکتی تاہم انہوں نے ’سیکیورٹی وجوہات‘ کا اشارہ دیا۔

علاوہ ازیں کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے چیئرمین اور وزیراعلیٰ کے مزید برائے ثقافت عبدالخالق ہزارہ نے دعویٰ کیا کہ مقتول کان کنوں کی لاشوں کو لواحقین کی مرضی کے خلاف ’زبردستی‘ مغربی بائی پاس لایا گیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ عناصر پاکستان مخالف ایجنڈا حاصل کرنے کے لیے لاشوں کا استعمال کر رہے تھے۔

تاہم جمعہ کو بلوچستان ایم ڈبلیو ایم کے صدر سید آغا رضا نے لواحقین کی موجودگی میں پریس کانفرنس میں ’لاشوں کو زبردستی لینے اور ہزارہ خاندانوں کی مرضی کے خلاف دھرنا دینے‘ سے متعلق رپورٹس کو مسترد کردیا۔

مچھ واقعہ

واضح رہے کہ 3 جنوری کو بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے مچھ میں مسلح افراد نے بندوق کے زور پر کمرے میں سونے والے 11 کان کنوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔

اس واقعے سے متعلق سامنے آنے والی معلومات سے پتا لگا تھا کہ ان مسلح افراد نے اہل تشیع ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ان 11 کوئلہ کان کنوں کے آنکھوں پر پٹی باندھی، ان کے ہاتھوں کو باندھا جس کے بعد انہیں قتل کیا گیا۔

مذکورہ واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اپنے پیاروں کی تدفین کردیں، میں جلد آپ کے پاس آؤں گا، وزیراعظم کی ہزارہ برادری سے اپیل

اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان سمیت مختلف سیاسی شخصیات نے اظہار مذمت کیا تھا جبکہ عمران خان نے ایف سی کو واقعے میں ملوث افراد کو انصاف میں کٹہرے میں لانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم اس واقعے کے فوری بعد سے ہرازہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر اپنے پیاروں کی میتیں رکھ کر احتجاج شروع کردیا تھا۔


اس خبر کی تیاری میں اسلام آباد سے سید عرفان رضا، قلب علی اور منور عظیم، کراچی سے عمران ایوب اور کوئٹہ سے سلیم شاہد نے معاونت فراہم کی۔

تبصرے (0) بند ہیں