کورونا وائرس کی نئی قسم دنیا بھر میں تشویش کا باعث بن چکی ہے، جس کے نتیجے میں برطانیہ کے مختلف حصوں میں بیماری کے پھیلاؤ کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

برطانوی حکومت کی جانب سے یہ نئی دریافت ہونے کے بعد لندن سمیت مختلف علاقوں میں سخت پابندیوں کا نفاذ کیا گیا ہے۔

برطانیہ کے وزیراعظم بورس جونسن اور ان کے چیف سائنسی مشیروں نے بتایا ہے کہ یہ نئی قسم کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی شرح کو 70 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔

مگر اس نئی دریافت کی اہمیت کیا ہےَ؟ ایسے چند سوالات کے جواب درج ذیل ہیں۔

اب تک اس قسم کے بارے میں کیا جان چکے ہیں؟

نئی برطانوی قسم جسے وی یو آئی 202012/01 یا لائنیج بی 117 کے نام سے جانا جاتا ہے، کا پہلی بار اعلان 14 دسمبر کو برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے کیا تھا۔

اس کے اتھ ہی پبلک ہیلتھ انگلینڈ اور یو کے کووڈ 19 سیکونسنگ کنسورشیم نے بھی اس کی تصدیق کی، جس کے مطابق اس کا پہلا نمونہ کینٹ کاؤنٹی میں 20 ستمبر کو ملا تھا۔

کورونا وائرس کی اس نئی قسم میں 14 میوٹیشن موجود ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں ہوئیں۔

یہ وہی پروٹین ہے جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں تبدیلیاں دنیا بھر میں گردش کرنے والے اس وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی نمایاں ہیں۔

اب تک اس قسم کے جینومز زیادہ تر برطانوی کیسز میں دیکھے گئے ہیں مگر ڈنمارک اور آسٹریلیا میں ان کی تشخیص ہوئی ہے، جبکہ نیدرلینڈز میں بھی ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

برطانیہ میں ڈیٹا شیئرنگ، جینومک نگرانی اور کووڈ 19 ٹیسٹ نتائج سے لگتا ہے کہ یہ نی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں غالب آرہی ہے اور کیسز میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔

فی الحال تو یہ صرف ایک امکان ہے مگر اس قسم کے حوالے تمام تر تفصیلات تشویش بڑھانے کے لیے کافی ہے۔

کیا یہ زیادہ خطرناک ہے؟

برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر کرس وائٹی نے کہا ہے کہ اب تک ایسے شواہد نہیں مل سکے جس سے معلوم ہو کہ یہ نئی قسم بیماری کی شدت میں تبدیلیاں لاسکتی ہے، اس کی تصدیق کے لیے تحقیقی کام ابھی جاری ہے۔

وائرس میں میوٹیشن کیسے ہوتی ہے؟

میوٹیشنز وائرس کی ارتقا کا قدرتی حصہ ہے، سارس کوو کے معاملے میں یہ تبدیلیاں وائرس کے نقول بنانے کے عمل میں خامیوں کا نتیجہ لگتی ہیں۔

بیشتر وائرل میوٹیشنز سے عام طور پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے، کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہزاروں جینومز میں متعدد میوٹیشن کو دیکھا گیا مگر کسی سے بھی وائرس کی بقا اور اپنی تعداد بڑھانے کی صلاحیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔

مگر کئی بار ایک میوٹیشن یا اس نئی قسم میں میوٹینشز کے اجتماع وائرس کو ایک نئی سبقت دلا دیتا ہے، جس سے اسے پھیلنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔

یہ قسم کہاں سے سامنے آئی؟

ابھی تو اس بارے میں کچچھ معلوم نہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ برطانیہ میں وائرس کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔

ایک خیال یہ ہے کہ کسی کمزور مدافعت والے مریض نے اس قسم کی تیاری میں کردار ادا کیا، تاہم اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے۔

اب تک کوروونا وائرس کی کتنی اقسام دریافت ہوچکی ہیں؟

نئے کورونا وائرس کی ہزاروں اقسام موجود ہیں جو معمولی میوٹیشنز کی وجہ سے ایک دوسرے مختلف ہیں۔

درحقیقت دنیا بھر میں نئے کورونا وائرس میں جینیاتی تنوع نہ ہونے کے برابر ہے۔

تو یہ نئی قسم مختلف کیوں ہے؟

اس نی قسم میں ہونے والی بیشتر تبدیلیاں اس وبا کے دوران پہلے بھی دیکھی جاچکی ہیں۔

مگر برطانوی قسم یا لائنیج میں میوٹیشنز کا امتزاج اور نمبر غیرمعمولی ہے، جن میں سے ایک میوٹیشن این 501 وائے ہے، جو اس سے قبل اپریل 2020 میں برازیل کے ایک سیونس میں دیکھی گئی تھی اور اس وقت جنوبی افریقہ میں گردش کرنے والے کورونا وائرس سے منسلک ہے۔

اس کے علاوہ بی 117 لائنیج بھی تشویش کا باعث ہے، جو اسپائیک پروٹین بی 117 میں دیکھی گئی ہے اور اس سے وائرس کی انسانوں کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے۔

اس حوالے سے تمام تر پہلوؤں کے بارے میں گہرائی میں جاکر جانچ پڑتال کرنا ابھی باقی ہے۔

ویکسین پر اثرانداز ہوگی؟

ابھی تو اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں مگر امکان یہی ہے کہ اس میوٹیشن سے ویکسینز کی افادیت متاثر نہیں ہوگی، فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے یہ جانچنے کے لیے کام بھی کیا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں