کووڈ 19 کے خلاف مدافعت 8 ماہ تک برقرار رہنے کا امکان

10 جنوری 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد میں مخصوص اینٹی باڈیز اور میموری خلیات 8 مہینوں سے زیادہ عرصے تک برقرار رہ سکتے ہیں، خصوصاً اس وقت جب مریض کے جسم کی جانب سے بیماری کے خلاف مضبوط مدافعتی ردعمل پیدا ہوا ہو۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

لا جولا انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس مرض کو شکست دینے والے افراد میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے خلاف اینٹی باڈیز 6 ماہ بعد بھی مستحکم ہوتی ہیں جبکہ اس پروٹین کے لیے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح بھی بیماری 6 ماہ بعد زیادہ ہوتی ہے، تاہم میموری ٹی سیلز کی تعداد میں 4 سے 6 ماہ کے دوران کمی آنے لگتی ہے، مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مقدار باقی بچ جاتی ہے۔

طبی جریدے سائنس میں شائع اس تحقیق میں شامل محقق شین کروٹی نے بتایا کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی نظام کی مدافعت اس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ممکنہ طور پر کئی برس تک برقرار رہ کر انہیں کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

اس تحقیق میں امریکا سے تعلق رکھنے والے کووڈ 19 کے 188 مریضوں کے 254 خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا، جن میں اس بیماری کی شدت مختلف تھی یعنی بغیر علامات، معمولی، معتدل اور سنگین۔

ان میں سے بیشتر میں کووڈ 19 کی شدت معمولی تھی اور 93 فیصد کو کبھی ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا۔

محققین نے ایسے 43 نمونے بھی دیکھے جو علامات کے آغاز کے 6 ماہ بعد لیے گئے تھے۔

انہوں نے دریافت کیا گیا کہ وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بیماری کے بعد ایک سے 8 ماہ تک مستحکم رہتی ہیں، وقت کے ساتھ ان کی سطح میں بتدریج کمی آتی ہے، مگر بظاہر وہ پائیدار ہوسکتی ہیں۔

میموری ٹی سیلز کو ایسے اینٹی جنز کے طور پر جانا جاتا ہے جو کسی مخصوص وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں، جو بیماری کے بعد ایک ماہ کے اندر ظاہر ہوتے ہیں اور 4 سے 6 ماہ تک ان کی سطح میں کمی آنے لگتی ہیں، مگر کسی حد تک برقرار رہتےہ یں۔

مخصوص مددگار ٹی سیلز وائرس ناکارہ بنانے والی اور طویل عرصے تک بیماری کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کو بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں، جو تحقیق میں شامل لگ بھگ تمام نمونوں میں دریافت ہوئی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں اینٹی باڈیز اورمیموری بی سیلز کی سطح زیادہ دیکھی گئی، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں طویل المعیاد مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔

مجموعی طور پر 64 فیصد کیسز میں پانچوں مدافعتی ردعمل کو دریافت کیا گیا جو بیماری کے بعد ایک یا 2 ماہ کے اندر بنتا ہے، جبکہ 5 سے 8 ماہ بعد 43 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

تاہم 95 فیصد مریضوں میں 5 میں سے 3 مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ دنیا میں کورونا وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے کے چند کیسز سامنے آئے ہیں، مگر وہ بغیر علامات والے یا معمولی بیمار افراد میں نظر آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیشتر مریضوں میں کووڈ 19 سے دوبارہ تحفظ فراہم کرنے والا پائیدار مدافعتی ردعمل کا امکان ہے۔

اس سے قبل دسمبر 2020 میں بھی ایسے شواہد سامنے آئے تھے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے یا بغیر علامات والے مریضوں میں اس بیماری کے خلاف مدافعت کئی ماہ تک برقرار رہتی ہے۔

امپرئیل کالج لندن، لندن کالج یونیورسٹی اور کوئین میری یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 136 ہیلتھ ورکرز کا جائزہ لیا گیا جن مین کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور بیماری کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 89 فیصد افراد میں بیماری کے 16 سے 18 ہفتوں بعد بھی کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بیشتر مریضوں میں ایسے ٹی سیلز بھی موجود تھے جو وائرس کے متعدد مختلف حصوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کچھ افراد میں ٹی سیلز امیونٹی تو تھی مگر اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں، جبکہ کچھ میں اس کا الٹ دیکھنے میں آیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ طبی ورکرز میں کووڈ 19 کے حوالے سے ہماری تحقیق میں انکشاف ہوا کہ بیماری کے 4 ماہ بعد بھی 90 فیصد افراد میں وائرس کو بلاک کرنے والی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ حوصلہ افزا پہلو یہ تھا کہ 66 فیصد افراد میں تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح کافی زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ٹی سیلز بھی تھے جو وائرس کے مختلف حصوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

محققین نے اسے اچھی خبر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثر ہوتا ہے، تو قوی امکان ہے کہ اس کے اندر اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز جیسے تحفظ فراہم کرنے والے عناصر بھی بن جائیں گے، جو ممکنہ طور پر اگلی بار وائرس کا سامنا ہونے پر تحفظ فراہم کریں گے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگرچہ تحفظ فراہم کرنے والا اینٹی باڈی ردعمل عموماً ٹی سیلز کے ردعمل پر حرکت میں آتا ہے، مگر 50 فیصد سے زائد مریضوں میں مختلف اینٹی باڈی اور ٹی سیل ردعمل دیکھنے میں آیا۔

تحقیق کے مطابق ان ورکرز میں ایسا ٹی سیل ردعمل پیدا نہیں ہوسکا جو نئے کورونا وائرس کی اوپری تہہ میں پائے جانے والے مخصوص پروٹینز کے خلاف کام کرتا ہو۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کہ ٹی سیلز کا ردعمل ان افراد میں زیادہ بہتر تھا جن میں کووڈ 19 کی علامات سامنے آئی ہوں، جبکہ بغیر علامات والے مریضوں میں کمزور ٹی سیل مدافعت دیکھنے میں آئی، مگر ان میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈی کی سطح علامات والے مریضوں جیسی ہی تھی۔

تحقیق سے یہ یقین دہانی ہوتی ہے کہ کورونا وائرس سے معمولی حد تک متاثر ہونے والے افراد میں بھی اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں