جس وقت فیس بک نے 2014 میں واٹس ایپ کو خریدا تھا تو صارفین فکرمند تھے کہ دونوں پلیٹ فارمز کے درمیان کس حد تک ڈیٹا کا تبادلہ ہوگا۔

ان میں سے بیشتر افراد کی آنکھ اب دوبارہ 2021 کو اس وقت کھلی جب ایک نیا نوٹیفکیشن سامنے آیا، جس میں نئی پرائیویسی پالیسی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ 8 فروری 2021 سے واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا فیس بک سے شیئر نہیں ہوگا بلکہ ایسا تو کئی برس یعنی 2016 سے ہورہا ہے اور اب مزید کمپنی نے تو اس کے بارے میں صارفین کا شعور اجاگر کیا ہے۔

جیسا آپ کے علم میں ہوگا کہ واٹس ایپ نے جنوری کے آغاز سے صارفین کے اکاؤنٹس میں نئی پرائیویسی پایسی کو اپ ڈیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن بھیجا تھا، جس کا بنیادی مقصد واٹس ایپ بزنسز صارفین کی جانب سے اپنی چیٹس کو اسٹور کرنے کے طریقوں کوو توسیع دینا ہے۔

اس پوپ اپ نوٹیفکیشن میں صارفین کو بتایا گیا ہے کہ 8 فروری سے ایپ کی پرائیویسی پالیسی تبدیل ہوجائے گی اور صارفین کو ایپلیکشن کا استعمال جاری رکھنے کے لیے ان کو لازمی قبول کرنا ہوگا۔

اصل میں واٹس ایپ کی جانب سے بس اب وہ راستہ بند کیا جارہا ہے جو فیس بک سے مخصوص ڈیٹا شیئر کرنے سے روکتا ہے۔

کچھ میڈیا کمپنیاں اور الجھن کے شکار واٹس ایپ صارفین کو لگتا ہے کہ واٹس ایپ نے اب وہ حد عبور کرلی ہے جس میں ڈیٹا کو لازمی طور پر فیس بک سے شیئر کیا جائے گا۔

مگر درحقیقت کمپنی صرف پرائیویسی پالیسی کی عکاسی کررہی ہے کہ واٹس ایپ کس طرح 2016 سے فیس بک کے ساتھ اپنے بیشتر صارفین کا ڈیٹا شیئر کررہی ہے۔

اگست 2016 میں واٹس ایپ نے اپنی پرائیویسی پالیسی کو اپ ڈیٹ کیا تھا اور فیس بک کے ساتھ یوزر انفارمیشن کو شیئر کرنا شروع کیا تھا۔

اس وقت واٹس ایپ صارفین کی تعداد ایک ارب تھی اور انہیں 30 دن تک آپشن دیا گیا تھا کہ وہ کچھ حد تک اپنے ڈیٹا کو شیئر ہونے سے روک سکتے ہیں۔

ایک ماہ کے اندر اس آپشن کا انتخاب کرنے والوں کا ڈیٹا کسی حد تک فیس بک تک شئیر نہیں ہوسکا تھا، یہ فیچر اب ایپ سیٹنگز میں موجود نہیں، مگر آپ ریکوئسٹ اکاؤنٹ انفو سے اس کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

تاہم اس وقت سے صارفین کا ڈیٹا فیس بک سے شیئر کیا جارہا ہے۔

واٹس ایپ نے زورو دیا ہے کہ نئی پالیسی میں تبدیلیوں سے فیس بک کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے کے حوالے سے واٹس ایپ کے موجودہ پریکٹس یا رویوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

واٹس ایپ نے اپنی سائٹ میں لکھا ‘ہماری اپ ڈیٹ پرائیویسی پالیسی زیادہ تفصیلات فراہم کرتی ہے کہ ہم کس طرح ڈیٹا کو پراسیس کرتے ہیں اور پرائیویسی کے لیے ہمارے عزم کا اظہار کرتی ہے، فیس بک کا حصہ ہونے کی حیثیت سے واٹس ایپ فیس بک کے شراکت داروں کے ساتھ فیس بک فیملی آف ایپس اینڈ پراڈکٹس کے تجربات صارفین کو فراہم کرتے ہیں’۔

نئی پرائیویسی پالیسی سے واٹس ایپ کی اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، یعنی میسجز، فوٹوز اور دیگر مواد جو واٹس ایپ پر بھیجا جاتا ہے، وہ صرف آپ اور ان کو موصول کرنے والی ڈیوائسز میں دیکھا جاسکے گا۔

واٹس ایپ اور فیس بک ان چیٹس یا رابطوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ واٹس ایپ کے پاس صارف کے ڈیٹا کی کمی ہے، بلکہ بہت کچھ وہ آپ کے بارے میں جانتی ہے۔

کمپنی کے مطابق وہ صارفین کی تفصیلات صارفین کو زیادہ بہتر سروسز کی فراہمی کے لیے جمع کرتی ہے۔

واٹس ایپ کی جانب سے اب بھی فیس بک کے ساتھ اکاؤنٹس انفارمیشن جیسے فون نمبر، کتنے وقت تک ایپ کو استعمال کیا اور کتنی دفعہ استعمال کرتے ہیں، شیئر کی جارہی ہے۔

اسی طرح دیگر تفصیلات جیسے آئی پی ایڈریس، آپریٹنگ سسٹم، براؤزر تفصیلات، بیٹری ہیلتھ انفارمیشن، ایپ ورژن، موبائل نیٹ ورک، لینگوئج اور ٹائم زون بھی فیس بک سے شیئر ہوتی ہیں۔

جہاں تک ٹرانزیکشن اور پیمنٹ ڈیٹا، کوکیز اور لوکیشن انفارمیشن جمع کرنے کی اجازت کی بات ہے تو یہ معلومات واٹس ایپ کو صارف پہلے ہی دیتے ہیں جو فیس بک تک جاتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق میسج کے مواد کے حوالے سے واٹس ایپ صارفین کی پرائیویسی کا بہترین تحفظ کرتی ہے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے ہٹ کر کمپنی کی نظر میں پرائیویسی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

فیس بک نے 2014 میں واٹس ایپ کو خریدا تھا اور اس وقت کہا تھا کہ واٹس ایپ اور میسنجر خودمختار ایپس کے طور پر کام کریں گی۔

واٹس ایپ بتدریج فیس بک سروسز میں شامل کرنے کا عمل کمپنی کے اندر بھی متنازع رہا اور اسی کے نتیجے میں 2017 اور 2018 میں واٹس ایپ کے بانیوں برائن ایکٹن اور جون کوم نے کمپنی کو الوداع کہہ دیا۔

کچھ ماہ بعد برائن ایکٹن نے ایک اور میسجنگ ایپ ’سگنل“ کی بنیاد رکھنے والی ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔

اس کمپنی نے سگنل کے اوپن سورس پروٹوکول کو بنانے کے بعد برقرار رکھا اور اس میں بھی واٹس ایپ کی طرح اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن دی گئی ہے۔

اب نئی پالیسی میسجنگ سروس کے رویوں میں تبدیلی نہیں لائے گی بلکہ یہ اس لیے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ صارفین کو علم ہوسکے گا کہ کمپنی نے اتنے برسوں تک آپٹ آؤٹ آپشن فراہم کررکھا تھا، جو اب نہیں رہے گا۔

اس وقت ڈیٹا شیئرنگ کے حوالے سے صارفین اب شدید ردعمل ظاہر کررہے ہیں اور اس پر خوفزدہ ہیں جو اب بھی ان کے ساتھ ہورہا ہے، بس ان کو علم نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں