حکومت سندھ نے کورونا ویکسین خود حاصل کرنے کیلئے وفاق سے اجازت مانگ لی

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2021
وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو—فوٹو: ڈان نیوز

سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کورونا وائرس کی ویکسینیشن میں پیچھے رہ جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ سندھ کو کورونا وائرس ویکسین حاصل کرنے کی اجازت دے۔

کراچی میں دیگر حکام کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کورونا ویکسین سے متعلق وفاقی حکومت سے بارہا بات کی ہے لیکن ابھی تک اس کے حصول اور حکمت عملی کہ کس مینوفکچرر سے کتنی ویکسین لی جائے گی اور کتنے وقت میں آجائے گی اس کا اندازہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ہم نے 70 سے 80 فیصد لوگوں کو ویکسین لگانی ہے کیونکہ ہماری آبادی بہت زیادہ ہے اور ویکسین کے حصول سے متعلق حکومتی سطح پر چینی حکومت سے بات کرنا وفاق کا کام ہے۔

ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا تھا کہ یہاں پر چینی ویکسین کے ٹرائل بھی ہوئے اور آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی، انڈس ہسپتال اور آغا خان ہسپتال سمیت دیگر جگہوں پر اس کے ٹرائل ہوئے۔

مزید پڑھیں: حکومت سب سے زیادہ افادیت والی کورونا ویکسین حاصل کرنے کی خواہاں

انہوں نے بتایا کہ یہ وائرس تبدیل ہورہا ہے لیکن سندھ اور جامعہ کراچی واحد ادارہ ہے جو وائرس کی جینیات پر کام کر رہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جین میں میوٹیشن ہورہی ہے اور وائرس کے اثرات میں تبدیلی آرہی ہے۔

اس موقع پر ایک ویکسین ’ایسٹروزینیکا‘ سے متعلق کہا کہ یہ نجی شعبہ حاصل کررہا ہے، ڈریپ نے بھی اس کی اجازت دے دی ہے اور ایک سے دو ہفتوں میں وہ نجی شعبہ میں آجائے گی اور وہ پیسے لیکر یہ فراہم کرے گی تاہم ہم نے ویکسین کو مفت فراہم کرنا ہے کیونکہ ہمیں لوگوں سے غرض ہے اور سب سے پہلے ہم نے ہماری ہیلتھ پروفیشنلز اور دیگر کو اسے فراہم کرنا ہے اور ہم ان سے پیسے نہیں لے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسٹروزینیکا‘ سے متعلق میں وفاقی حکومت سے بات کروں گی کہ اگر ہم بطور صوبہ یہ نجی شعبے سے حاصل کرلیں اور لوگوں کو فراہم کریں تو اس سے یہ ہوجائے گا کہ ہم ویکسینیشن شروع کردیں گے۔

صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ہماری تیاری مکمل ہے، ویکسینیشن سینٹر، لاجسٹک تیار ہیں جبکہ 2 مراکز میں ہم نے ڈرائی رن بھی کیا ہے۔

دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا تھا کہ یہ وائرس بہت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، آج کی ویکسین 2 یا 4 سال بعد مؤثر ہوگی یا نہیں یہ کہنا بھی مشکل ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم ابھی سے ویکسینیشن شروع کردیں۔

انہوں نے بتایا کہ سائنوفام چین، برازیل، یو اے ای اور دیگر جگہوں پر استعمال ہوئی ہے اور اس کے کوئی منفی اثرات بھی نہیں آئے ہیں تاہم اس کا کتنے عرصے تک اثر رہتا ہے اس کا تعین ضروری ہے۔

دوا ساز ادارے فائزر کی جانب سے بنائی گئی ویکسین سے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ اس کی ویکسین ہم ویسے ہی درآمد کرکے لگا نہیں سکتے کیونکہ اس کو منفی 60 سے 70 ڈگری پر ہم رکھ ہی نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا چینی ویکسین پرانے طریقے سے بنائی گئی ہے، اس سے ہمیں خطرہ نہیں ہے اور اس کے ایسے منفی اثرات نہیں ہوگے۔

اس موقع پر وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ہمیں یہ اجازت دے کہ ہم ویکسین حاصل کرے کیونکہ اگر وفاقی حکومت اس عمل میں تیزی نہیں لاتی تو ہم چاہتے ہیں کہ ہم سائنوفام اور دیگر چینی ویکسین سمیت دنیا میں بننے والی دیگر ویکسین کے لیے رابطہ کریں اور اپنے لوگوں کے لیے ویکسین حاصل کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی بہت گنجان آباد علاقہ ہے اور ملک میں وائرس کا پھیلاؤ بھی سب سے زیادہ ہے لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ویکسینیشن مہم شروع کریں۔

دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سائنوفام کا پہلا ٹرائل کامیابی سے ہوگیا ہے اور اس میں کوئی ایسا مسئلہ نظر نہیں آیا ہے جبکہ آئی سی سی بی ایس کو چینی حکومت نے اس کے حصول کی اجازت دے دی تھی لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ وفاقی حکومت یا وزارت خارجہ کے طور پر ہم سے رابطہ کریں تو ہم آپ کو یہ دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری وفاقی حکومت سے التجا ہے کہ ہمیں ویکسین حاصل کرنے کی اجازت دی جائے، وفاقی حکومت بھلے یہ ویکسین خریدے اور ہمیں ہمارا حق فراہم کرے لیکن ہم بطور صوبہ خود یہ ویکسین بھی خرید سکیں تاکہ ہم اپنے لوگوں کو بچا سکیں۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ویکسین کے بعد بھی آپ کو ماسک پہننا پڑے گا کیونکہ ویکسین آپ کو کسی اور میں جراثیم منتقل کرنے سے نہیں روکتی وہ آپ کو محفوظ رکھے گی اور اس بیماری کی وجہ سے ہمارے لوگوں پر جو اثرات ہورہے ہیں، اموات ہورہی ہیں ان سے بچا جاسکے گا۔

برطانیہ سے آئے 5 افراد جن میں نئے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی، ان کی صحت سے متعلق جب پوچھا گیا تو ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا وائرس اتنا مہلک نہیں تھا بلکہ اس کے پھیلاؤ کا خطرہ تھا، تاہم ہم نے ان لوگوں کے رابطے میں آنے والے لوگوں کا پتا لگایا انہیں آئیسولیٹ کیا جس کی وجہ سے یہ پھیلا نہیں۔

ویکسین سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہم مینوفکچررز کو آرڈرز نہیں دے سکتے کیونکہ مختلف ممالک نے پہلے ہی دوگنا آرڈر دے دیے ہیں، تاہم ہم چاہ رہے ہیں کہ حکومتی سطح پر ممالک کے درمیان رابطہ کیا جائے۔

ویکسین کے حصول کے لیے جلد بازی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکا، برطانیہ، یورپ کیا جلد بازی کر رہے ہیں، یہاں تک کہ افریقی ممالک بھی خرید رہے ہیں جبکہ بھارت میں بھی یہ شروع ہوگئی ہے، اس کے علاوہ ترکی نے بھی ویکسین شروع کردی ہے، ہم ریس میں پیچھے رہ گئے ہیں، کیا ہم بیٹھے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے لوگ مریں گے اور لوگ بیمار پڑے گیں جبکہ آپ بین الاقوامی سطح پر تنہا ملک بن جائیں گے، جہاں آپ کا پاسپورٹ دیکھا جائے گا کہ آپ کی ویکسین نہیں ہوئی اور دوسرے ملک میں جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔

ڈاکٹر عذرا کا کہنا تھا کہ جیسے پولیو کو ساتھ ہوا ہے کہ ہمیں سفر سے قبل پولیو سرٹیفکیٹ دکھانا پڑتا ہے اسی طرح کورونا کے ساتھ بھی ہوگا کہ ہمیں سفر سے قبل اس کا سرٹیفکیٹ دکھانا پڑے گا۔

اس موقع پر صحافی کی جانب سے مفت ویکسین کی فراہمی سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹر عذرا کا کہنا تھا کہ ہم کورونا کا پی سی آر ٹیسٹ بھی مفت کر رہے ہیں جو 4 سے 6 ہزار کا ہے جبکہ یہ ویکسین ڈھائی ہزار یا اس سے کم کی مل سکتی ہے، اگرچہ ہم ایک دم سے پورے ملک اور سندھ میں ویکسین نہیں لگا سکتے تاہم ہم مہینے میں تھوڑا خرچہ کرکے اسے منگوا سکتے ہیں اور اتنے پیسے ہیں کہ ہم اسے منگوا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کووڈ 19 ویکسین کے جلد حصول کیلئے پُرامید

انہوں نے کہا کہ ہم ہسپتالوں، آئی سی یو اور دیگر اخراجات پر خرچہ کر رہے ہیں ایک آئی سی یو میں یومیہ ڈیڑھ لاکھ روپے فی مریض خرچ ہوتا ہے تاہم ویکسین منگوا کر ہم یہ پیسے بچا سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں ملک میں تعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا مؤقف یہ ہے کہ جب تک وائرس سے متاثر ہونے کی شرح 3 فیصد سے کم نہیں ہوجاتی تعلیمی ادارے نہیں کھولنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں تو تعلیمی ادارے بالکل نہیں کھولنے چاہئیں، ان شہروں میں وائرس کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے اور یہ بڑھ رہا ہے، پہلے کیسز 300 سے 400 تک یومیہ تھے لیکن اب دوبارہ ایک ہزار سے 1200 پر آگئے ہیں اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

وائرس تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، ڈاکٹر اقبال چوہدری

قبل ازیں جامعہ کراچی کے آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ فروری میں ڈاکٹر عذرا نے ہم سے ایک ملاقات کی تھی اور ہمیں تحقیق کا کہا تھا اور نہ صرف ڈائیگناسٹک بلکہ ٹرائلز، ٹی سی ایم، جینوم سرولنس پر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق میں ثابت ہوا یہ وائرس تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور اس کی شرح ہماری توقعات سے زیادہ ہے، خیال یہ تھا کہ اربوں ڈالر مالیت کی ویکسین سے لوگوں کو زندگی بھر کا تحفظ ملے گا تاہم سائنس نے ثابت کیا ہے کہ اس کی قسم میں تبدیلی آرہی ہے اور افریقہ اور برطانیہ کی قسم آپ کے سامنے ہے۔

ڈاکٹر اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے سندھ حکومت کے تعاون سے یہ کام شروع کیا اور ہم ملک سے نمونے حاصل کرکے ان کی جانچ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وائرس کی جینوم میں 122 تبدیلیاں ہوچکی ہیں جس میں سے 32 میوٹیشن ایسی ہیں جس کی وجہ سے اس وائرس کا متاثر کرنے کا طریقہ ووہان کے وائرس سے مختلف ہے جبکہ میوٹیشن کی شرح ہر گزرتے مہینے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔

چینی ویکسین سائنوفام کے ٹرائل سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہم اس کا ٹرائل کر رہے ہیں اور بنیادی طور پر اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کی حفاظتی سطح کتنی ہے اور یہ ٹرائل تقریباً مکمل ہونے والا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں