لاپتا فرد کیس: ’عدالتوں سمیت سب جوابدہ ہیں، کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں‘

اپ ڈیٹ 19 جنوری 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی — فائل فوٹو: ڈان
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی — فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا فرد کے کیس سے متعلق سماعت کے دوران سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ چھوٹا سا اسلام آباد ہے، ہر مہینے 4، 5 لوگ لاپتا ہوجاتے ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ عدالتوں سمیت سارے جواب دہ ہیں، کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں۔

وفاقی دارالحکومت میں عدالت عالیہ میں جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے 5 سال سے لاپتا شہری عمر عبداللہ کی بازیابی کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیے جانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر سابق سیکریٹری داخلہ، دفاع، سابق آئی جی اسلام آباد و دیگر حکام عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

کیس کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے شہری کی عدم بازیابی پر سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیر حسین، سابق سیکریٹری داخلہ عارف خان، سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد جان محمد کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کردیے۔

مزید پڑھیں: لاپتا شہری کیس میں سرکاری حکام پر ایک کروڑ روپے جرمانہ

ساتھ ہی جسٹس محسن اختیار کیانی نے ریمارکس دیے کہ 7 دن میں جواب دیں، پھر یہ نہیں کہنا کہ آپ کو سنا نہیں، نااہلی دکھانے پر 6، 6 ماہ کے لیے جیل بھیج دیں گے۔

عدالت نے سماعت کے دوران موجودہ سیکریٹریز داخلہ و دفاع کو بھی نوٹس جاری کیے اور ان سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

بعد ازاں عدالت عالیہ میں دوران سماعت سابق سیکریٹری داخلہ عارف خان نے مؤقف اپنایا کہ 2016 اور 2017 میں سیکرٹری داخلہ تھا، مجھے اس کا کچھ معلوم نہیں، اس پر عدالت نے وہاں موجود جوائنٹ سیکریٹری سے پوچھا کہ کیا آپ سیکریٹری داخلہ کو بتاتے نہیں کہ لاپتا افراد سے متعلق کیا ہوتا ہے؟

عدالت نے کہا کہ آج سابق کے خلاف تو کل ان حاضر سیکریٹری داخلہ و دفاع کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، اگر آپ نے اس کیس سے متعلق ذمہ داری نہیں لینی تو پھر وزیراعظم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

دوران سماعت سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیر حسین نے کہا کہ اگست 2016 سے 2018 تک میں سیکریٹری دفاع رہا ہوں، اس کیس سے متعلق ہمارے اجلاس ہوتے رہے، میں ان میں شریک بھی ہوتا رہا ہوں۔

کیس کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پولیس یا انٹیلی جنس ایجنسیز کام نہیں کرتیں تو کیا ہوگا، کوئی دہشت گرد بھی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں، عدالتوں میں پیش کریں، اس کیس کی تو ہسٹری ہے، کیا ہم نے جواب نہیں دینا؟ یہ نظام کیسے چلے گا؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر یہ چلتا رہا تو ایک دن لوگ عدالتوں سمیت سارے نظام کو آگ لگا دیں گے، اگر ادارے قانون سے ماورا کام کریں گے تو لوگ بھی ہتھیار اٹھا لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتوں سمیت سب جواب دہ ہیں، کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں، ساتھ ہی عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس فائل دیکھی ہے، آئی جی سے لے کر سب نے نااہلی دکھائی، یہ (مذکورہ فرد) کے اہل خانہ کھڑے ہیں، ان کو کیا کہیں کہ ادارے ناکام ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ کیا سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ صرف عہدے کا مزہ لینے (انجوائے کرنے) کے لیے ہوتے ہیں، پاکستان کی خدمت قانون کے مطابق ہی ہونی ہے اس سے باہر کچھ نہیں، آپ کے محکمے ہیں اگر آپ ان سے پوچھ نہیں سکتے تو کون پوچھے گا۔

اپنے ریمارکس میں عدالت نے مزید کہا کہ سیکریٹری بنتے ہوئے دل خوش ہوتا ہے لیکن کام کی باری آئے تو ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں، اس کیس سے ایک پیغام جائے گا، کسی کو تو سزا ہونی ہے کہیں سے تو کام شروع ہونا ہے۔

عدالت نے کہا کہ عدالتوں کو تو بڑا بُرا بھلا کہا جاتا ہے، ہم تو کام نہ کرنے والے ججز کے خلاف بھی کارروائی کرتے ہیں، کوئی چاہے سیکریٹری دفاع ہو، داخلہ ہو، آئی جی ہو یا جج کام نہیں کرسکتا تو استعفی دے کر گھر جائے۔

ساتھ ہی عدالت نے جبری گمشدگیوں سے متعلق بنائے گئے کمیشن پر بھی ریمارکس دیے اور کہا کہ جبری گمشدگی کمیشن بھی ایک مذاق ہے، کمیشن بھی ایجنسیز سے مل کر کام کرتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا، 5، 5 سال مقدمات پڑے رہتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ پولیس کے علاوہ ایجنسیز کا انویسٹی گیشن میں کوئی کردار نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

دوران سماعت عدالت نے کہا کہ چھوٹا سا اسلام آباد ہے ہر مہینے کے 4، 5 لوگ لاپتا ہو جاتے ہیں، ان سے یہ بھی حل نہیں ہورہا، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ عدالت کے فیصلوں کے ان اداروں کے سربراہان کے لیے سنگین اثرات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیکیورٹی کے لیے ادارے کام کر رہے ہیں، شہید بھی انہی کے ہوتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ وانا، وزیرستان میں یہ سیکیورٹی ادارے کام کر رہے ہیں، اسی وجہ سے ملک چل رہا ہے، ان اداروں کی بڑی قربانیاں ہیں، ہم ان کی قدر کرتے ہیں، یہ لوگ لائن آف فائر پر بیٹھے اس ملک کے لیے جانیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔

سماعت کے دوران عدالت میں پولیس نے رپورٹ بھی پیش کی جس میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں لاپتا افراد کے 43 کیسز زیر التوا ہیں، مذکورہ رپورٹ پر عدالت نے کہا کہ رپورٹ میں یہی لکھا ہوا ہے کہ پولیس اور لوگوں کی موجودگی میں اس شخص کو اٹھایا گیا، یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کی واضح مثال ہے۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 3 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ و دفاع سے جواب طلب کرلیا۔

تبصرے (0) بند ہیں