حکومت سوشل میڈیا قواعد پر نظرثانی کیلئے تیار

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2021
سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے حکومتی قواعد پر مخالفت سامنے آئی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے حکومتی قواعد پر مخالفت سامنے آئی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے حال ہی میں سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے لیے نافذ کیے گئے قواعد پر نظرثانی کرنے کی حامی بھرلی اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان نے عدالت کو آگاہ کردیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان و دیگر افراد پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 19 اور 19 اے بنیادی حقوق سے متعلق ہیں، لگتا ہے کہ سوشل میڈیا قواعد بناتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد نافذ، اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت

اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزاروں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی جس کے بعد اس پر نظرثانی کریں گے کیونکہ مکمل پابندی یا کسی پلیٹ فارم کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ مہلت دی جائے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور اسٹیک ہولڈرز سے مل کر قواعد پر نظرثانی کریں گے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا بہت مثبت رد عمل ہے، مشاورت ضروری ہے اور یہ بہت مناسب بات ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ سوشل میڈیا قواعد میں نظرثانی کرنے کو تیار ہیں تو اپنی تجاویز انہیں پیش کریں، ہمیں ان پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے اور اچھی بات کی توقع کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس کیس میں عدالتی معاون بھی مقرر کیے تھے، پاکستان بار کونسل اور پی ایف یو جے اس معاملے میں اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں، اس پر وکیل درخواست گزار اسامہ خاور نے کہا کہ ہماری گزارش یہ ہے کہ ہمیں پہلے بھی بلا کر مشورہ کیا گیا مگر بات نہیں مانی گئی۔

سماعت کے دوران ہی ایک اور وکیل کاشف علی ملک نے کہا کہ عدالت سے استدعا ہے کہ نئے سوشل میڈیا قواعد کی روشنی میں کوئی ’ایڈورس‘ آرڈر پاس کرنے سے روکا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر ہم کوئی جنرل آرڈر پاس نہیں کریں گے، اگر ان رولز کی بنیاد پر کوئی آرڈر پاس ہوا تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 26 فروری تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ حکومت نے نومبر 2020 کو 'ریموول اینڈ بلاکنگ اَن لا فل آن لائن کانٹینٹ (پروسیجر، اوور سائٹ اینڈ سیف گارڈز) رولز 2020 'کے عنوان سے قواعد (نوٹیفائڈ) نافذ کیے تھے لیکن ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے اس کا خیرمقدم نہیں کیا گیا تھا۔

ان قواعد کے نوٹیفائی ہونے کے ایک روز بعد ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ان ضوابط کے تحت ان کا ملک میں اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

یہی نہیں بلکہ ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) کی جانب سے اس نئے قواعد پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان کو بھی خط لکھ کر مدد کی اپیل کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ اے آئی سی امریکا سے تعلق رکھنے والی 15 کمپنیوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ایک گروپ ہے، جس میں یاہو، فیس بک، ٹوئٹر، ایپل، کلاؤڈ فلیئر، بوکننگ ڈاٹ کام، گریب، ایئربی این بی، سیپ، راکیوٹین، لنکڈان، لائن، امیزون اور ایک پیڈیا گروپ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد پر غلط تاثر پیدا کیا جارہا ہے، پی ٹی اے

مذکورہ خط میں کہا گیا تھا کہ ان قواعد کی وجہ سے ان سوشل میڈیا کمپنیوں کا پاکستان میں اپنی خدمات اور پلیٹ فارم جاری رکھنا 'سخت مشکل' ہوگیا ہے۔

5 دسمبر کو تحریر کیے گئے خط میں مشاورت کے معتبر عمل کا فوری مطالبہ کیا گیا تھا جس کے ذریعے اے آئی سی اراکین اہم اِن پٹ فراہم کرسکیں اور اہم مسائل مثلاً فرد کے اظہار اور پرائیویسی کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے گئے حقوق پر بات چیت کی جائے۔

علاوہ ازیں ان تحفظات کا جواب دیتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی نے کہا تھا کہ ’قوانین سے متعلق متعصبانہ اور غلط تاثر پیش کیا جارہا ہے‘۔

پی ٹی اے نے ایک بیان میں معنیٰ خیز مشاورت نہ کیے جانے کے اے آئی سی کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے اسے ’گمراہ کن اور حقائق کے منافی‘ قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں