پاک۔چین کمپنیوں کے اشتراک سے تیار ہونے والی پہلی کامپیکٹ سیڈان گاڑی آلسوین کی 6 ماہ کی پروڈکشن محض 5 دن کے اندر فروخت ہوگئی۔

اس کامیابی پر سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس سے چینی گاڑیوں کے لیے پاکستان میں برآمدی مرکز کا دروازہ کھل گیا ہے۔

پاکستان کی ماسٹر موٹرز اور چین کی چین گن کے اشتراک سے متعارف کرائی گئی اس گاڑی کے 15 ہزار یونٹ 5 دن میں فروخت ہوئے۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق آلسوین کو کراچی میں اسمبل کیا جارہا ہے جس کے لیے 13 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز لاگت سے پلانٹ کو 2017 میں تعمیر کیا گیا تھا، جس میں 70 فیصد حصہ پاکستانی جبکہ 30 فیصد چینی کمپنی کا ہے۔

شنگھائی سے تعلق رکھنے والی کمپنی ایس اے آئی سی موٹر، جو برطانوی کار برانڈ ایم جی کی ملکیت رکھتی ہے، نے جنوری 2021 میں کراچی میں 10 کروڑ ڈالرز کی لاگت سے ایک پلانٹ کی تعمیر کراچی میں شروع کی ہے، جہاں توقع ہے کہ چھوٹے انجنوں والی 3 گاڑیوں یا ایس یو ویز کی پروڈکشن اگلے سال سے شروع ہوگی۔

آلسوین کو دسمبر 2020 میں پیش کیا گیا مگر فروخت کا آغاز جنوری میں ہوا، فوٹو بشکریہ پاک وہیلز
آلسوین کو دسمبر 2020 میں پیش کیا گیا مگر فروخت کا آغاز جنوری میں ہوا، فوٹو بشکریہ پاک وہیلز

کے اے ہین ٹینگ موٹر کی جانب سے بھی 5 کروڑ ڈالرز کی لاگت کا اسمبل پلانٹ پاکستان میں تعمیر کیا جارہا ہے اور توقع ہے کہ اس سال سے وہاں 15 ہزار ایس یو ویز اور مسافر گاڑیوں کی پروڈکشن شروع ہوسکتی ہے۔

الحاج فا بھی پاکستانی و چینی کمپنیوں کا مشترکہ پراجیکٹ ہے جس کی بنیاد 2012 میں رکھی گئی اور گزشتہ سال سے پروڈکشن کا عمل تیز کرتے ہوئے 20 ہزار ہیچ بیک گاڑیاں تیار کی گئیں۔

جب ماسٹر گروپ نے چین گن کے ساتھ 2016 میں گاڑیوں کی مشترکہ تیاری کا منصوبہ پیش کیا تھا، تو اس کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے دیگر ایشیائی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرنا تھا، جہاں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت چین کی جانب سے سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔

سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔

سی پیک کے پہلے 5 سال کے دوران چین کی سرکاری ملکیت میں موجود کمپنیوں نے پاکستان میں 5320 میگا واٹس بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ تعمیر کیے، 1544 کلو میٹر طویل موٹرویز کی تعمیر کی۔

سی پیک کے تحت شاہراہ قرقرام پر تعمیر کردہ ایک ایکسپریس وے، فوٹو بشکریہ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ
سی پیک کے تحت شاہراہ قرقرام پر تعمیر کردہ ایک ایکسپریس وے، فوٹو بشکریہ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ

اسی طرح دیگر منصوبوں پر ابھی کام جاری ہے جن کے تحت مزید 2844 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی جبکہ پاکستان کے شمال۔ جنوب نیٹ ورک کے لیے 1456 کلومیٹر طویل موٹر وے پر کام کیا جارہا ہے۔

سڑکوں کا کام مکمل ہونے پر چین کی گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں ٹرانزٹ کی منتقلی کا وقت کم ہوجائے گا، یعنی وہ سڑک کے راستے یا گودار سے اپنی گاڑیاں پاکستان پہنچا سکیں گی۔

ماسٹر گروپ کے سی ای او ڈینیئل ملک نے بتایا کہ ہم چین گن کے ساتھ پاکستان میں مشترکہ منصوبہ سی پیک 2.0 کے تحت لے کر آئے تھے۔

اس سے مراد سی پیک کا دوسرا 5 سالہ مرحلہ ہے، جس میں پاکستان کی جانب سے خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر کی جائے گی تاکہ چینی کمپنیوں کو توجہ حاصل کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ چین میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں، تو چین گن رائٹ ہینڈ گاڑیوں کی تیاری کے مرکز کے لیے جگہ دیکھ رہی تھی اور ہم نے پاکستان کا نام تجویز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ہم بتدریج چین کی گاڑیوں کو دیگر رائٹ ہینڈ ڈرائیو مارکیٹس جیسے بنگلہ دیش یا سری لنکا کو برآمد کرسکیں گے۔

لندن سے تعلق رکھنے والے آٹوموبائل صنعت کے تجزیہ کار پونیت گپتا نے کہا کہ رائٹ ہینڈ گاڑیوں کی تعمیر کا مرکز چین کی کمپنیوں کے منافع میں اضافے کی کنجی ثابت ہوگا۔

پاک چینی کمپنیوں کے اشتراک سے تیار کردہ ایک اور گاڑی الفا، فوٹو بشکریہ یونائیٹڈ موٹرز
پاک چینی کمپنیوں کے اشتراک سے تیار کردہ ایک اور گاڑی الفا، فوٹو بشکریہ یونائیٹڈ موٹرز

انہوں نے کہا کہ ایک دہائی تک بے مثال ترقی کے بعد چینی مارکیٹ گزشتہ 2 سال سے جمود کا شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے چینی کمپنیاں دیگر مارکیٹوں کو دیکھ رہی ہیں اور پڑوسی مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کررہی ہیں تاکہ دوبارہ پہلے کی طرح اپنا کام پھیلا سکیں، ان میں سے ایک اہم ترین حکمت عملی رائٹ ہینڈ گاڑیوں کی مارکیٹ جیسے پاکستان میں قدم جمانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کی گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کے لیے پاکستان ایک اسٹرٹیجک ہب ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہت زیادہ گہرے ہیں۔

بھارت کی جانب سے لداخ کے تنازع کے باعث چینی سرمایہ کاری پر پابندیوں کا نفاذ کیا گیا، جس کے نتیجے میں چینی کمپنیوں کے لیے وہاں پروڈکشن مراکز کو تعمیر کرنا ممکن نہیں رہا۔

پونیت گپتا نے کہا کہ بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے چینی کمپنیوں کو سیکیورٹی کلیئرنس کی ضرورت ہے، جس کے باعث ان کے لیے وہاں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ چین تیزی سے پاکستانی مارکیٹ کا رخ کررہا ہے، جہاں ترقی کے مواقع بہت زیادہ ہیں اور وہ بھی ایک رائٹ ہینڈ مارکیٹ ہے۔

پاکستان اور چین کی کمپنیوں کی ایک اور مشترکہ گاڑی پرنس پرل، فوٹو بشکریہ پرو پاکستانی
پاکستان اور چین کی کمپنیوں کی ایک اور مشترکہ گاڑی پرنس پرل، فوٹو بشکریہ پرو پاکستانی

ڈینیئل ملک نے کہا کہ چین کی بڑی گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں ماضی میں اپنے ملک کی طلب پوری کرنے تک محدود تھیں اور حال ہی میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا، جب انہوں نے دریافت کیا کہ جاپانی اور جنوبی کورین کمپنیوں نے ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹوں پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح چینی کمپنیوں نے کنزیومر الیکٹرونکس میں کام کیا، اسی طرح اب گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں بھی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیاں پرکشش قیمتوں میں فروخت کرکے صارفین کو اپنی جانب کھینچنا چاہتی ہیں۔

اس پالیسی کا ایک نتیجہ آلسوین کے 3 میں سے ایک ورژن کو متعارف کرانے کے بعد کامیابی کی شکل میں نظر آتا ہے۔

اس سے قبل پاکستان میں صارفین کے پاس مقامی طور پر اسمبل جاپانی گاڑیوں کی محدود رینج سے ہٹ کر آپشن نہیں تھا، جو دیگر ممالک کے مقابلے میں پرانے ورژن کی تھیں۔

پاکستان میں 1990 کی دہائی کے بعد ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کو اجارہ داری حاصل ہے مگر 2018 سے 2020 کے دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 50 فیصد کمی آنے کے نتیجے میں گاڑیوں کی قیمتوں میں لگ بھگ ایک تہائی اضافہ ہوا۔

ہیچ بیک اور سیڈان گاڑیوں کی قیمتوں میں فرق اتنا بڑھ گیا کہ بیشتر متوسط خاندان بھی انہیں خریدنے کے قابل نہیں رہے۔

اس موقع پر ایم سی ایم نے ایسے صارفین کو مدنظر رکھ کر کام شروع کیا اور ڈینیئل ملک کے مطابق ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ آلسوین کے ذریعے پاکستانیوں کو سیڈان گاڑی تک رسائی دی جائے گی کیونکہ اس وقت انٹری لیول سیڈان کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں جو عام فرد خرید نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے نہ صرف ایسی سیڈان کو متعارف کرایا جو ہیچ بیک صارفین خرید سکتے ہیں بلکہ ہم ایسے فیچرز بھی فراہم کررہے ہیں جو اس سے قبل پاکستان میں کسی سیڈان گاڑی میں نہیں تھے یا ایسی گاڑیوں میں تھے، جن کی قیمت آلسوین سے 35 فیصد سے زیادہ ہے۔

یہ پہلا ماڈل ہے جس میں ایسا انجن دیا گیا ہے جس کے لیے یورو 5 اسٹینڈرڈ فیول استعمال ہوتا ہے، جس کو اس سال پاکستان میں حکومت کی جانب سے متعارف کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔

پاکستان میں کام کرنے والی دیگر کمپنیوں نے ابھی تک اپنی گاڑیوں میں یورو 2 اسٹینڈرڈ انجن کو تبدیل نہیں کیا۔

ڈینیئل ملک کا کہنا تھا کہ ایک انٹری لیول گاڑی میں ایسے تمام فیچرز نے صارفین کے دل جیت لیے۔

چین میں کمپنیوں نے گزشتہ سال ایک کروڑ 92 لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت کیں جو 2017 کے مقابلے میں 20 فیصد کم ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران 2 لاکھ گاڑیاں فروخت ہونے کا امکان ہے جبکہ یہ تعداد 2017-2018 میں 2 لاکھ 17 ہزار تھی۔

تاہم چینی گاڑیوں کی پاکستان میں فروخت کی شرح انڈونیشیا سے زیادہ ہے، جہاں 2019 میں 8 لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئیں۔

ان دونوں ممالک میں رائٹ ہینڈ گاڑیوں کو فروخت کیا جاتا ہے اور آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے گاڑیوں کے حوالے سے نئی پالیسی کے فریم ورک کی منظوری دسمبر 2020 میں دی گئی تھی، جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں میں سرمایہ کاری پر مراعات دی جائیں گی، جو چینی کمپنیوں کے لیے اہم موقع ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے پہلے ہی چینی الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا جاچکا ہے اور ان پر عملدرآمد نئی پالیسی کے تحت ٹیکس مراعات کو حتمی شکل دیتے ہی شروع ہوجائے گا۔

پالیسی کو حتمی شکل دیئے جانے پر ماسٹر گروپ کی جانب سے کراچی پلانٹ میں پروڈکشن گنجائش کو توسیع دی جائے گی، جہاں 2.5 میگا واٹ سولر پاور پلانٹ بھی زیر تعمیر ہے، تاکہ الیکٹرک گاڑیوں کی تعمیر کی جاسکے۔

تبصرے (1) بند ہیں

nk Jan 25, 2021 08:05pm
Jub dunya electric cars ki tarf barh rahi hey toa hamaray mulk mein gasoline engine kay plany kiyon lag rahay hein,??