لاہور: طلبہ کا احتجاج، پولیس کے مبینہ لاٹھی چارج سے متعدد زخمی

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2021
لاہور میں طلبہ کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا—فائل/فوٹو: وائٹ اسٹور
لاہور میں طلبہ کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا—فائل/فوٹو: وائٹ اسٹور

لاہور میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے مبینہ لاٹھی چارج سے متعدد طلبہ زخمی ہوگئے۔

پروگریسو اسٹوڈنٹس کولیکٹیو (پی ایس سی) کے مطابق ان کے لاہور کے صدر زبیر صدیقی کو پولیس نے یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) سے گرفتار کر لیا ہے جو مظاہرے کی قیادت کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لمز کی فیسوں میں اضافے پر طلبہ اور اساتذہ کا احتجاج

پی ایس سی نے بعد ازاں ٹوئٹ میں کہا کہ زبیر صدیقی اور دیگر طلبہ مبینہ طور پر پولیس کے لاٹھی چارج سے شدید زخمی ہوگئے ہیں اور انہیں انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) منتقل کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پنجاب پولیس کی غنڈہ گردی کے خلاف احتجاج کے لیے طلبہ یو ایم ٹی کے باہر جمع ہو رہے تھے کہ ان پر لاٹھی چارج کیا گیا'۔

پولیس نے لاٹھی چارج کی خبروں کو مسترد کردیا۔

ڈان ڈاٹ کام کو ایس پی صدر ڈویژن آپریشنز حفیظ الرحمٰن بگٹی نے کہا کہ 'پولیس نے کسی طالب علم پر تشدد نہیں کیا اور نہ ہی تشدد کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے اور احتجاج کرنے والے طلبہ کو کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ سے مذاکرات کریں۔

یو ایم ٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'جامعہ، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے جاری کردہ احکامات پر عمل کرنے کی پابند ہے'۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی ماضی میں بھی آن لائن امتحانات لے چکی ہے اور اسی طرح امتحانات اور کلاسز کے لیے ایچ ای سی کی گائیڈ لائنز پر عمل درآمد ہو گا۔

دوسری جانب سماجی کارکن عمار علی جان نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 'تمام حدود' پار کرلی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے کہا کہ 'ایک سال سے زیادہ ہوگیا ہے کہ فاشسٹ حکومت طلبہ کو دھمکا رہی ہے، گرفتار اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر رہی ہے لیکن آج پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر بدترین حملہ کرکے تمام حدود پار کرلی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب حکومت کو طلبہ تحریک کی بھرپور قوت کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

دوسری جانب طلبہ کا احتجاج بدستور جاری ہے۔

گورنر ہاؤس کے باہراحتجاج

سرکاری اور نجی جامعات کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے گزشتہ ہفتے گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج کیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ براہ راست امتحانات لیے جائیں، اسی طرح ایوان اقبال کے باہر بھی طلبہ نے جامعات کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جامعہ کراچی کے طلبہ کا سمسٹر امتحانات کے خلاف احتجاج

طلبہ کا کہا تھا کہ یونیورسٹی نے کورونا وبا کی وجہ سے آن لائن کلاسیں لی تھیں کیونکہ تعلیمی ادارے بند تھے لیکن یونیورسٹی نے مختلف کورسز کا سلیبس مکمل نہیں کیا اور اب انتظامیہ امتحانات کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جامعات نے ہوسٹل بند کر دیے اور دوسرے شہروں سے آئے ہوئے طلبہ کو رہنے کے لیے جگہ نہیں ہے اور ایسے حالات میں وہ کیسے تیاری کریں اور امتحان میں شریک ہوں گے۔

فیس کے معاملے پر طلبہ کا کہنا تھا کہ نجی جامعات نے لاکھوں فیس وصول کی ہے اور سلیبس بھی مکمل نہیں کیا اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ جامعات کو مزید فیس لینے سے روکا جائے اور ان کے پاس مزید فیس دینے کی حیثیت بھی نہیں ہے۔

بعد ازاں طلبہ نے گورنر ہاؤس کے عملے کو اپنے مطالبات پیش کیے اور ان کی جانب سے براہ راست امتحانات کی منسوخی کی یقین دہانی پر مطالبات پیش کیے۔

اس سے قبل پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچی تھی اور طلبہ کو احتجاج ختم کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ورنہ ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں