سینیٹ میں کریمہ بلوچ کی میت کے معاملے پر حکومت، اپوزیشن آمنے سامنے

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2021
جہانزیب جمال دینی  نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ پورے ملک میں پڑھی گئی—فائل فوٹو: ٹوئٹر
جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ پورے ملک میں پڑھی گئی—فائل فوٹو: ٹوئٹر

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مردہ پائی جانے والی بلوچ سیاسی کارکن کا معاملہ سینیٹ میں اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کریمہ بلوچ کی میت ایئر پورٹ سے اغوا کی گئی اور ان کی والدہ کو دیدار بھی نہیں کرنے دیا گیا۔

سینیٹ کے اجلاس میں ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ بلوچستان میں سب کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ ادا کرنا چاہتے تھے لیکن سیکیورٹی ایجنسیاں ایک میت سے خوفزدہ تھیں۔

مزید پڑھیں: سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کینیڈا میں مردہ پائی گئیں، پولیس

انہوں نے بتایا کہ مکران میں نیٹ ورک بند کیے گیے اور اجازت نہیں دی گئی کہ کریمہ بلوچ کی میت کے ساتھ کوئی اس کی قبر تک جا سکے۔

سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ پورے ملک میں پڑھی گئی اور ان کی بزور شمشیر تدفین کی گئی۔

انہوں نے سینیٹ میں کہا کہ کریمہ بلوچ کی والدہ کو آخری دیدار کی اجازت نہیں دی گئی۔

سینیٹر نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اینکر اور میڈیا والے بکے ہوئے ہیں کیونکہ کسی نے خبر تک نشر نہ کی جبکہ صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر مکران میں کرفیو لگا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کینیڈین حکومت سے کریمہ بلوچ کی موت کی تحقیقات کی درخواست

سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ کریمہ بلوچ لڑنے یا مکران فتح کرنے نہیں آئی تھی لیکن آپ 'شہید' کے تابوت سے بھی خوفزدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہے، اس طرح لوگ نفرت کرتے جائیں گے اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ بلوچستان کے لوگ آپ سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔

سینیٹر نے کہا کہ اخلاقی طور پر ہر کسی پر فرض ہے کہ خاتون کی لاش کی بے حرمتی پر آواز اٹھائے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر کا ردعمل

اس معاملے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر فدا محمد خان نے اپوزیشن کو مخاطب کرکے کہا کہ کریمہ بلوچ کی میت پر تو سیاست نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ خاتون کا جنازہ ہوا ہے جبکہ کریمہ بلوچ کا جنازہ سیاست کے لیے لیاری لے جانا چاہتے تھے۔

فدا محمد خان نے کہا کہ کینیڈا کی حکومت نے کہا کہ کریمہ بلوچ کا قتل نہیں ہوا بلکہ موت طبی تھی تو حکومت اسے قتل کیوں کہہ رہی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا ردعمل

بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا کہ بلوچ سیاسی رہنما کریمہ بلوچ نے راکھی بند پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مدد کی اپیل کی تھی اور مرحومہ پاکستان کو ختم کرنے پر یقین رکھتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی آبائی علاقے میں تدفین کی گئی جبکہ تدفین کو سندھ پولیس نے لیڈ کیا۔

انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی میت کو پولیس سیکیورٹی میں لے کر قبرستان تک لے کر گئی کیونکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقع پیش آ سکتا تھا۔

مزید پڑھیں: کینیڈین پولیس کی تحقیقات مکمل، کریمہ بلوچ کی موت کو ’غیرمجرمانہ‘ قرار دے دیا

انہوں نے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی کے مؤقف کر تردید کی کہ کریمہ بلوچ کی میت کو کسی نے اغوا کیا۔

سینیٹر انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ کریمہ بلوچ اور ان کے رفقا نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ہتھیار اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ کریمہ بلوچ کی موت میں پاکستانی ریاست کا ہاتھ ہے تو بات کریں، ساجد کا سوئیڈن میں انتقال ہوا تو اسے بھی ریاست پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔

سینیٹر نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر جو تشدد کرتا ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کے لیے لفظ شہادت کا استعمال ہو رہا ہے جیسے ان کی کسی نے جان لے لی ہے۔

خیال رہے کہ ٹورنٹو پولیس نے لاپتا ہونے کے بعد مردہ پائی گئیں بلوچ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی موت کو ’نان کریمنل‘ (غیر مجرمانہ) قرار دے دیا تھا۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ جو کریمہ محراب کے نام سے بھی جانی جاتی تھی وہ ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن واٹر فرنٹ ایریا سے لاپتا ہوگئی تھیں۔

کریمہ بلوچ تقریباً 5 سال سے جلاوطنی میں کینیڈا کے شہر میں رہ رہی تھیں۔

کریمہ بلوچ ایک معروف اسٹوڈنٹ آرگنائزر تھیں جنہوں نے بلوچستان کے حقوق کے لیے مہم چلائی اور بعد ازاں دھمکیاں ملنے پر وہ کینیڈا منتقل ہوگئیں، ان کا نام 2016 کی بی بی سی کی 100 متاثر کن اور اثر رکھنے والی خواتین میں شامل کیا گیا تھا۔

ان کی ٹوئٹر پروفائل کے مطابق کریمہ بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن-آزاد اور بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف) بلوچستان کی سابق چیئرپرسن تھیں، وہ بلوچ حقوق اور لاپتا افراد کے لیے فعال مہم جو تھیں۔

نشہ کے عادی افراد کیلئے بحالی مراکز سے متعلق قرارداد منظور

علاوہ ازیں سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر بہرمند خان تنگی کی جانب سے پیش کردہ قرارداد منظور کرلی گئی جس میں نشہ کے عادی افراد کے لیے ہر ضلع میں بحالی مراکز بنائے جائیں۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر انسداد منشیات اعجاز احمد شاہ نے بتایا کہ نشے کے عادی افراد مجرم نہیں بلکہ مریض ہیں جبکہ نشہ آور چیزیں سپلائی کرنے والے مجرم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں 50 لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں اور 2 ماہ میں پنجاب کے ہر ضلع میں نشہ کی لت سے بحالی کے مرکز قائم ہونا شروع ہو جائیں گے۔

اعجاز احمد شاہ نے بتایا کہ ملک میں 33 فیصد ذہنی مریض نشے کی وجہ سے ہیں اور خدشہ ہے کہ 2030 تک 50 فیصد ذہنی مریض نشہ کی وجہ سے ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں