پولیو ویکسین پلانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں کمی کے باوجود چیلنج برقرار

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2021
حال ہی میں پولیو ویکسینیشن سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے — فائل فوٹو : اے ایف پی
حال ہی میں پولیو ویکسینیشن سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے — فائل فوٹو : اے ایف پی

پشاور: خیبر پختونخوا میں آخری مہم کے دوران حکام پولیو ویکسین کے خلاف انکار کرنے والوں کی تعداد کو کافی حد تک کم کر چکے ہیں لیکن اب بھی چیلنج برقرار ہے کیونکہ ذرائع کے مطابق ایسے والدین اب بھی موجود ہیں جو اپنے بچوں کو پولیومائیلیٹس سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے کہا کہ 11 جنوری 2021 کو شروع کی گئی پانچ روزہ مہم میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے حکم عدولی کرنے والوں کی تعداد میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن والدین کو راضی کرنے کی ضرورت ہے جو ملک کو اس بچپن کے عارضے سے پاک کرنے کی کوششوں میں مسلسل رکاوٹ ہیں۔

مزید پڑھیں: پولیو اور حفاظتی ٹیکوں سے متعلق مشاورتی گروپ قیام کے بعد سے غیرفعال

ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے خلاف کل 39 ہزار 549 بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے تھے کیونکہ والدین بچوں کو بچاؤ کے قطرے پلانے سے ہچکچا رہے تھے، نومبر کی انتخابی مہم میں انکار کرنے والوں کی تعداد 39 ہزار 770 تھی اور گزشتہ مہم میں اس میں صرف 221 بچوں کی کمی واقع ہوئی جن کو پہلے ویکسین نہیں پلائی گئی تھی اور جنوری کی مہم کے دوران انہیں قطرے پلائے گئے۔

پشاور میں پولیو کے خاتمے کے حوالے سے خطرہ لاحق ہے کیونکہ اس میں پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلانے سے انکار کرنے والوں کے خلاف 16 ہزار 467 کیسز درج ہیں تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ پچھلی مہم کے تناظر میں ایک بڑی کامیابی ہے جس میں پانچ سال کی عمر تک کے 20 ہزار 58 بچے ویکسین سے محروم رہے تھے، انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے صوبائی دارالحکومت میں انکار کرنے والوں کی تعداد کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

ویکسینیشن کے انکار کے سب سے زیادہ کیسز پشاور نمایاں ہیں، آخری مہم کے دوران ڈپٹی کمشنر اور اس کے ماتحت عملے نے والدین کو اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے پر راضی کرنے میں دلچسپی دکھائی تھی۔

عہدیداروں نے بتایا مہم کے دوران ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز نے شہر میں لوگوں کے گھروں کا دورہ کیا اور والدین کو حوصلہ دیا کہ ان کے وارڈز کو مستقبل میں معذوروں سے بچانے کے لیے ویکسینیشن انتہائی کارآمد ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر والدین ہچکچاتے تھے جس کی وجہ سے ابتدائی طور پر جن بچوں کو ویکسین نہیں پلائی جا سکی ان کی تعداد 41 ہزار 467 تھی، اس حوالے سے بچوں کی ابتدائی گنتی 41،467 تھی لیکن انتظامیہ کی بروقت مداخلت نے بہت اثر ڈالا اور مہم میں اس تعداد کو تقریباً دو تہائی سے کم کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اگر کووڈ 19 سے نمٹ سکتا ہے تو پولیو سے کیوں نہیں، آئی ایم بی

عہدیداروں نے بتایا کہ صوبے میں 65 لاکھ 12 ہزار 747 بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے ہدف بنایا گیا تھا جس میں سے انکار کرنے والی کی تعداد صرف 0.60 فیصد تھی لیکن اسے خاطر خواہ نہیں لیا جاسکا کیوں کہ پولیومائیلیٹس کے خاتمے کا تعلق ہے تو ان کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ تمام بچوں کو ہر مہم میں اس وقت تک دو قطرے پلائے جائیں جب تک کہ وہ پانچ سال کی عمر تک نہ پہنچ جائیں۔

شمالی وزیرستان میں ویکسینیشن کے حوالے سے ہچکچاہٹ بڑھ گئی ہے، جہاں نومبر میں انکار کرنے والے 2 ہزار 3 افراد کے مقابلے میں یہ تعداد 6 ہزار 816 تک پہنچ گئی ہے، لکی مروت میں گزشتہ مہم میں ویکسین پلانے کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کی تعداد 2 ہزار 176 افراد کے مقابلے میں بڑھ کر اب 2 ہزار 366 تک پہنچ گئی ہے، حکام کا ایک اور کارنامہ بنوں میں انکار کرنے والوں کی تعداد 4 ہزار 841 سے کم کر کے 4 ہزار 735 تک پہنچانا ہے۔

عہدیداروں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر جو بچے پولیو کی ویکسینیشن سے رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار 626 تھی اور یہ کم ہوکر 39 ہزار 549 ہو گئی ہے جہاں ضلعی انتظامیہ نے سخت کوششیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ضلعی انتظامیہ کے زیادہ فعال کردار کی ضرورت ہے تاکہ والدین کے انکار سے نمٹا جا سکے اور قطرے پلانے کے بارے میں غلط فہمیوں کو ناکام بنایا جاسکے، ہمارے ویکسین پلانے والوں کے پاس والدین کو اپنے بچوں کو قطرے پلانے پر مجبور کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن انتظامیہ کو لوگوں کو راضی کرنے یا قانونی اسلحہ استعمال کرنے کا اختیار ہے۔

مزید پڑھیں: کرک میں انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، پولیس اہلکار شہید

2020 میں ملک بھر سے رپورٹ ہونے والے وائلڈ پولیو کے 84 کیسز میں سے خیبرپختونخوا میں 22 کسیز رپورٹ ہوئے اور ملک بھر میں سی وی ڈی پی وی کے رپورٹ ہونے والے 42 کیسز میں سے 22 کیسز صوبے میں ریکارڈ کیے گئے کیونکہ کووڈ-19 کے آغاز کے سبب ویکسینیشن میں کمی آئی ہے، اس سال پولیو کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

عہدیداروں نے بتایا کہ انہوں نے چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کی زیر صدارت ضلعی انتظامیہ سے اُمیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں کہ وہ انکار سے نمٹیں اور تمام بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کو یقینی بنائیں، انہوں نے کہا کہ مکمل پیمانے پر مہم کے دوبارہ آغاز کے ساتھ رضاکار کورونا وائرس کے خلاف سخت حفاظتی تدابیر اور اقدامات ہر عمل کررہے ہیں، ہمیں اُمید ہے کہ 2021 میں اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے، اگلی مہم مارچ میں ہوگی لیکن انتظامیہ کا کردار اہم ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں