'کورونا وائرس پھیلانے کے سوا نیب پر ہر قسم کا الزام لگایا جاچکا ہے'

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2021
چیئرمین نیب نے ایوان صنعت و تجارت میں تقریب سے خطاب کیا — تصویر: ڈان نیوز
چیئرمین نیب نے ایوان صنعت و تجارت میں تقریب سے خطاب کیا — تصویر: ڈان نیوز

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب کے خلاف تواتر کے ساتھ مذموم پروپیگنڈا جاری ہے، صرف یہ نہیں کہا گیا کہ کورونا وائرس نیب نے پھیلایا ہے باقی ہر قسم کا الزام نیب پر لگایا گیا ہے اور ہم نے اسے خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے اور جب ممکن ہوا جواب دیا۔

وفاقی دارالحکومت میں ایوان صنعت و تجارت میں ایک تقریب کے دوران تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب کے خلاف پروپیگنڈا صرف وہ افراد کررہے ہیں جن کے خلاف انکوائری جاری ہے یا تحقیقات ہورہی ہیں یا عدالت میں ان کا ریفرنس زیر سماعت ہے اور اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی تو ملک میں عدالتیں موجود ہیں آپ نیب کے خلاف وہاں درخواست دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ سیاسی انجینیئرنگ کی جاتی ہے جو درست نہیں، نیب کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، اور لوگ کہتے ہیں کہ نیب اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے لیکن کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے وہ افراد جن کی جانب کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا تھا، کوئی چھو نہیں سکتا تھا نیب نے انہیں احتساب کے لیے بلایا اور پوچھا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور انہوں نے ملک سے جانا ہی مناسب سمجھا۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الزامات پر نوٹس

ان کا کہنا تھا کہ ایک صوبے میں 10 سے 15 ارب روپے کی گندم کی خرد برد کی گئی جب پوچھا گیا کہ یہ گندم کہاں گئی تو جواب ملا کے چوہے کھا لیتے ہیں لہٰذا جب چند موٹے چوہوں کو پکڑا گیا تو 10 سے 15 ارب روپے کی رقم 3 ماہ میں واپس آگئی۔

انہوں نے کہا کہ جب نیب کا سلسلہ واضح طریقے سے ختم ہوگا تو میں بتاؤں گا کہ کتنی دھمکیاں ملتی ہیں، کتنی مراعات ہیں اور کتنا لالچ ہے لیکن جب میں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا کہ جو کچھ میں کرسکا وہ اپنے ملک اور ملک کے عوام کے لیے کروں گا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے عہدے کی 3 سالہ مدت کے دوران نیب نے 4 کھرب 87 ارب روپے برآمد کیے ہیں، اتنی بڑی رقم اگر ڈکیتی کی نذر ہوچکی ہو تو اسے برآمد کرنا آسان کام نہیں ہے۔

چیئرمین نیب کے مطابق اس وقت ایک ہزار 235 ریفرنسز مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں جن میں سے ایک فیصد بھی کاروباری افراد کے خلاف نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ نیب کے حوالات چھوٹے ہیں تو اب ہم سرینا یا سینٹورس کا کمرہ کہاں سے لائیں جو کمرے ہیں وہیں رکھا جاتا ہے۔

ایک واقعہ بتاتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ایک صاحب کے خلاف سو سے ڈیڑھ سو شکایات آئیں کہ پیسے دینے کے 5 -6 سال بعد بھی کوئی پلاٹس نہیں ملے تو میں نے انہیں بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ نے پیسے لیے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تھوڑے سے لیے ہیں پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ڈھائی ارب روپے وہ لے چکے ہیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ میں نے انہیں کہا کہ جب پیسے لے لیے ہیں یا تو زمین دے دیں یا پیسے واپس کردیں جس پر ان صاحب نے بتایا کہ میری حکمت عملی یہ تھی کہ پہلے میں پیسہ اکٹھا کرلوں اس کے بعد زمین خریدوں اب مجھے زمین نہیں مل رہی، نیب مجھے زمین لے کر دے دے۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کو سینیٹ میں طلب کرنے کیلئے تحریک استحقاق

انہوں نے کہا کہ تاہم ہمارے اصرار پر انہوں نے قسطوں میں ادائیگی کی پیشکش کی جو نیب نے منظور کرلی اور اب وہ فرد پیسے دے رہے ہیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ایک مرتبہ جو رقم لوٹ لی جائے یا ڈکیتی کرلی جائے اس کی واپسی کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور کی ایک معروف ہاؤسنگ سوسائٹی سے خاصے دوستانہ ماحول میں 2 سال کے عرصے میں ڈھائی ارب روپے کی رقم حاصل کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ کاروباری افراد کی شکایت تھی کہ ہمارا نجی معاملہ ہے، نجی معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک فرد کا دوسرے کے ساتھ ہو لیکن جب سیکڑوں افراد شامل ہوجاتے ہیں تو یہ نجی معاملہ نہیں رہتا۔

چیئرمین نیب نے اپنا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے وقت جب مجھے واجبات ملے تو ایک پلاٹ لینے کا سوچا اور اس کے لیے یکمشت 45 لاکھ روپے کی ادائیگی بھی کی لیکن آج تک نہ پلاٹ ملا نہ وہ 45 لاکھ روپے ملے۔

ان کا کہنا تھا میں کسی کو یہ نہیں کہتا کہ میرے پیسے واپس کرو بلکہ میں ان کے پیسے واپس کروارہا ہوں جن کے پاس کھانے کے پیسے نہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ آپ کے حوالے کیا اور آپ نے لوٹ لیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کی چینی اسکینڈل کی تحقیقات پیشہ ورانہ انداز میں مکمل کرنے کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ وہ ماضی کی باتیں تھی کہ جب کوئی پوچھتا نہیں تھا اب پوچھنے والے موجود ہیں اور یہ اس وقت تک پوچھتے رہیں گے جب تک ہر غریب آدمی کو اس کے پیسے یا پلاٹ نہیں مل جاتا۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایسی بھی سوسائٹیز تھیں جنہیں کنگ میکر کہا جاتا تھا ان سے ہم نے اربوں ڈالر برآمد کیے ہیں جو کسی دھمکی سے نہیں بلکہ قانونی طریقے سے پلی بارگین کر کے واپس لیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سختی سے ہدایت کردی گئی ہے کہ کسی بزنس مین کو ٹیلیفون کر کے نیب کے دفتر نہیں بلایا جائے گا اگر کسی کو بلانا ہوا تو چائے پلانے کے لیے میں انہیں خود بلالوں گا اور بیٹھ کر بات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیب 20 سال پہلے وجود میں آیا اور میرے عہدے کو 3 سال ہوئے ہیں اس دوران نیب کی بہتری کے لیے جو انسانی کوشش کی جاسکتی تھی وہ میں نے کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی تاجر نیب کی وجہ سے ملک چھوڑ کر نہیں گیا لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کوئی تاجر نیب کے خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ کر چلا گیا ہے تو میں ابھی دفتر کے بجائے گھر چلا جاؤں گا۔

تبصرے (0) بند ہیں