پاکستان کی سلامتی کونسل میں نئی مستقل نشستوں کی مخالفت

26 جنوری 2021
منیر اکرم نے اقوام متحدہ میں مؤقف پیش کیا—فائل فوٹو: بشکریہ ریڈیو پاکستان
منیر اکرم نے اقوام متحدہ میں مؤقف پیش کیا—فائل فوٹو: بشکریہ ریڈیو پاکستان

پاکستان نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل میں نئی مستقل نشستوں کی تشکیل کی واضح مخالفت کردی۔

سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی نے رپورٹ کیا کہ پاکستان نے خبردار کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی مستقل نشستوں کے خواہش مند، بھارت، برازیل، جرمنی اور جاپان (المعروف جی-4) کی جانب سے 15 رکنی باڈی کی اصلاح کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوششیں اتفاق رائے پر مبنی عمل کو زیادہ مؤثر، نمائندہ اور قابل احتساب بنانے کو ختم کردیں گی۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے نئے مستقل اراکین بنانے پر پاکستان کی سخت مخالفت کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ’بین الحکومتی مذاکرات (آئی جی این) کونسل کی جامع اصلاحات کے لیے واحد معتبر پلیٹ فام رہا ہے‘۔

نیویارک میں پیر کو طویل عرصے سے جاری آئی جی این عمل دوبارہ شروع ہونے پر پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’آئی جی این عمل کو نقصان پہنچانے یا ڈی ریل کرنے کی کوئی بھی کوشش الٹ ثابت ہوگی‘۔

منیر اکرم کا کہنا تھا کہ جی-4 اراکین یہ ’خوف‘ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب تک عمل کو شارٹ سرکٹ کرنے کے ان کے طریقہ کار کے اقدام کی توثیق نہیں کی جاتی اصلاحت کے لیے مواقع جلد ضائع ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان بھاری اکثریت سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا دوبارہ رکن منتخب

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’ہم آئی جی این میں نئی زندگی جینے کے لیے تیار ہیں لیکن کچھ ریاستیں اس عمل کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں‘۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں 5 اہم معاملات پر اصلاحات کے لیے مکمل مذاکرات کا آغاز فروری 2009 میں جنرل اسمبلی میں ہوا تھا، ان 5 معاملات میں ممبرشپ کی کٹیگریز، ویٹو کا سوال، علاقائی نمائندگی، توسیع شدہ سلامتی کونسل کا سائز اور جنرل اسمبلی کے ساتھ کونسل کے کام کے طریقہ کار اور تعلقات شامل تھے۔

اقوام متحدہ کے اصلاحاتی عمل کے حصے کے طور پر کونسل کو وسعت دینے کے عمومی معاہدے کے باوجود رکن ممالک تفصیلات پر واضح طور پر تقسیم رہے۔

جی-4 نے 6 اضافی مستقل اور 4 غیر مستقل رکن کے ساتھ 10 نشستوں تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع کے لیے اپنے قدم میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔

دوسری جانب اٹلی/پاکستان کی زیر قیادت اتحاد برائے اتفاق رائے (یو ایف سی) گروپ کسی بھی اضافی مسقل اراکین کی مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اسے کم نمائندہ، کم مؤثر اور مزید منقسم کردے گا اور باڈی کی خدمت کے لیے اقوام متحدہ کی رکنیت کی اکثریت کے حق کو ختم کردے گا۔

یو ایف سی نے اراکین کی ایک نئی کٹیگری کی تجویز دی ہے جو طویل مدتی اور دوبارہ منتخب ہونے کے امکان کے ساتھ مستقل نہیں ہے۔

یاد رہے کہ سلامتی کونسل اس وقت 5 مستقل اراکین، جس میں برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکا شامل ہیں، ان پر مشتمل ہے جبکہ اس کے 10 غیر مستقل اراکین بھی ہیں جو 2 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔

اپنے بیان میں سفیر منیر اکرم کا کہنا تھا کہ یو ایف سی کی 11 نئی غیر مسقتل نشستیں شامل کرنے کی تجویز سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مساوی نمائندگی کے ’خسارے‘ کا ازالہ ہوگا کیونکہ اس میں تمام گروپس کے مفادات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’1945 میں کونسل نے اقوام متحدہ کی رکنیت کی 20 فیصد کی نمائندگی کی اور آج یہ رکنیت کی 8 فیصد نمائندگی کررہی ہے، 1945 میں 8 رکن ریاستوں کے لیے ایک غیرمستقل نشست تھی جبکہ آج 19 رکن ریاستوں کے لیے صرف ایک غیرمستقل نشست ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کے ایک تہائی اراکین نے کبھی کونسل میں خدمات انجام نہیں دیں جبکہ سینٹ ونسینٹ اور گریناڈائنز صرف دوسری چھوٹی آئی لینڈ ترقی پذیر ریاست ہے جس نے یو این ایس سی میں کبھی خدمت انجام دی۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ: پاکستان، بھارت کی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر ایک دوسرے پر تنقید

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ یو ایف سی کی تجویز افریقی گروپ، چھوٹی آئی لینڈ ڈیولپنگ ریاستیں، عرب گروپ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی امنگوں کو ایڈجسٹ کرسکتی ہے تاہم ’جی 4 کی جانب سے اپنے خطوں کے لیے افریقی علاقائی نقطہ نظر کو لاگو کرنے کا امکان نہیں ہے‘۔

انہوں نے نشاندہی کی اتفاق رائے پر مبنی افریقی ماڈل ’نمائندگی‘ اور ‘احتساب‘ کی دو ضروریات پر متحرک ہے۔

ساتھ ہی منیر اکرم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور یو ایف سی آئی جی این کے گرشتہ اجلاس کے دوران ہونے والی پیش رفتوں کے فروغ کے لیے خواہاں ہے، مزید یہ کہ صرف مذاکرات اور اتفاق رائے کے ذریعے ہی مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’ہم اس مقصد کے فروغ کے لیے آپ کے ساتھ کام کرنے کے تیار ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں