امریکی پابندیاں ختم ہونے تک جوہری پروگرام میں تخفیف ممکن نہیں، ایران

29 جنوری 2021
انہوں نے کہا کہ  واشنگٹن کا مطالبہ 'رو بہ عمل نہیں اور ایسا نہیں ہوسکتا —فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کا مطالبہ 'رو بہ عمل نہیں اور ایسا نہیں ہوسکتا —فائل فوٹو: اے ایف پی

ایران نے امریکا کے اس مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ جب تک اقتصادی پابندیاں ختم نہیں کردی جاتیں وہ جوہری پروگرام میں تخفیف نہیں کرے گا۔

غیرملکی خبررساں ادارے 'راٹئرز' کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے کہا کہ تہران کے جوہری پروگرام میں تخفیف کا کوئی امکان نہیں ہے۔

مزیدپڑھیں: ایران نے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کا عمل شروع کردیا

ترکی میں ترک ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ واشنگٹن کا مطالبہ 'رو بہ عمل نہیں اور ایسا نہیں ہوسکتا'۔

امریکی صدر جوبائیڈن کی نئی انتظامیہ نے کہا تھا کہ تہران جوہری معاہدے 2015 کے تحت اپنی جوہری سرگرمی کو محدود کردے۔

رواں ماہ کے آغاز میں ایران نے ایٹمی پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کو 20 فیصد تک دوبارہ شروع کیا تھا۔

واضح رہے کہ 2 جنوری کو ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں کے ادارے کو یورینیم کی افزودگی سے متعلق اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

سرکاری ترجمان علی ربیئی نے ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ کو بتایا تھا کہ ’شاہد علی محمدی افزودگی کمپلیکس (فورڈو) میں 20 فیصد یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع ہوچکا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایران جوہری معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے: یو این واچ ڈاگ

تاہم ایران نے کہا کہ اگر امریکی پابندیاں ختم کردی جائیں تو وہ معاہدے کے خلاف ورزیوں کو جلد از جلد ختم کرسکتا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر امریکا اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو پوری کریں گے۔

اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے امریکا کے خلاف ایرانی دباؤ کو قطعی مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران متعدد معاملات میں معاہدوں پر عمل پیرا نہیں ہے۔

جس پر جاوید ظریف نے فوری طور پر ٹوئٹر پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے 'جوہری معاہدے 2015 کی پاسداری کی ہے" اور تہران نے صرف 'احتیاطی تدابیر' اپنائی ہے۔

مزیدپڑھیں: ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان

واضح رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد خطے میں ایران کو اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور میزائل پروگرام سے دستبرداری تھا۔

8 مئی 2018 کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

5 مارچ 2019 کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کررہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔

2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔

ایران نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران بلیسٹک میزائل بنانے کے تمام پروگرام بند کردے گا اور اس معاہدے کے متبادل کے طور پر ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اسے امداد کے لیے اربوں روپے حاصل ہوسکیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں