چین کی اسمارٹ فون کمپنی شیاؤمی نے امریکا کے دفاع اور خزانہ کے محکموں کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے۔

کمپنی کی جانب سے یہ مقدمہ واشنگٹن کی عدالت میں 29 جنوری کو دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اس کا نام امریکا اس آفیشل فہرست سے نکالا جائے جس میں ایسی کمپنیوں کو شامل کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر چینی فوج سے تعلق رکھتی ہیں۔

شیاؤمی نے بتایا کہ امریکا کی جانب سے اسے بطور کمیونسٹ چینی ملٹری کمپنی کے طور پر فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ غلط ہے اور عدالت کی جانب سے اسے غیرقانونی قرار دیا جائے۔

شیاؤمی کا کہنا ہے کہ کمپنی کے 75 فیصد ووٹنگ حقوق ایک منظم اسٹرکچر کے تحت اس کے بانیوں لین بن اور لائی جیون کے پاس ہیں۔

کمپنی کی ملکیت یا کنٹرول کسی ایسے فرد یا ادارے پاس نہیں جس کا فوج سے تعلق ہو۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری ہفتے میں شیاؤمی سمیت 8 چینی کمپنیوں کو 'کمیونسٹ چائنیز ملٹری کمپنیوں' کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

امریکی محکمہ دفاع کی اس فہرست میں شامل کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے، جس کے بعد امریکی شہریوں یا اداروں کو ان میں سرمایہ کاری سے روک دیا جاتا ہے۔

اس موقع پر شیاؤمی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کی جانب سے تمام امریکی قوانین و ضوابط کی پابندی کی جارہی ہے اور اس کا چینی فوج سے کوئی تعلق نہیں۔

بیان میں کہا گیا 'کمپنی اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی مصنوعات اور سروسز شہریوں اور کمرشل استعمال کے لیے فراہم کرتی رہے گی۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ چینی فوج کی ملکیت، زیرتحت یا منسلک نہیں اور نہ ہی کمیونسٹ چائنیز ملٹری کمپنی ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کی اس فہرست کو 1999 میں تشکیل دیا گیا تھا جسس کا مقصد چینی فوج سے منسلک یا زیرتحت کمپینوں کو شامل کرنا تھا۔

ہواوے کو جس فہرست میں بلیک لسٹ کیا گیا ہے وہ ہواوے سے مختلف ہے۔

ہواوے امریکی محکمہ تجارت کی فہرست میں شامل ہے، جس کے تحت امریکی کمپنیوں کو اس کے ساتھ کاروبار سے روکا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حالیہ ہواوے فونز میں گوگل پلے اسٹور یا امریکی پراسیسرز موجود نہیں۔

اس فہرست میں ہی زی ٹی ای بھی ہواوے کے ساتھ شامل ہے، ہواوے پر پابندیوں کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کاروبار کا بڑا حصہ ٹیلی کمیونیکشن آلات جیسے 4 جی اور 5 جی نیٹ ورکس کی تشکیل میں مدد دینے والے آلات ہیں۔

ان ٹیلی کمیونیکشنز آلات کو ٹرمپ انتظامیہ نے قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے، جبکہ شیاؤمی کی جانب سے کنزیومر الیکٹرونکس مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر اسے زیادہ سخت پابندیوں والی فہرست کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں