بھارت: زرعی اصلاحات کے خلاف سراپا احتجاج مظاہرین تشدد کے ذمہ دار نہیں تھے، کسان رہنما

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2021
ریلی میں موجود ایک گروہ نے کسان مخالف نعرے لگائے—رائٹرز
ریلی میں موجود ایک گروہ نے کسان مخالف نعرے لگائے—رائٹرز

بھارتی حکومت کی جانب سے متنازع زرعی اصلاحات اور اس کے نتیجے میں نئی دہلی میں کسانوں کے احتجاجی مرکز میں کاشتکار مخالف ایک گروہ کی اشتعال انگیزی کے حوالے سے کسان رہنماؤں نے کہا ہے کہ سراپا احتجاج مظاہرین تشدد کے ذمہ دار نہیں تھے۔

غیرملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کسان رہنماؤں نے بتایا کہ ریلی میں موجود ایک گروہ نے کسان مخالف نعرے لگائے اور احتجاجی شرکا کو اشتعال دلایا۔

مزید پڑھیں: بھارت: زرعی اصلاحات کےخلاف کسانوں کے احتجاجی مرکز پر جھڑپیں

انہوں نے کہا کہ کسانوں اور ایک گروپ کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے ذمہ داران اس اقلیتی گروپ کے اراکین تھے۔

دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ لال قلعے پر دھاوا بولنے والے کسانوں نے ملک کی 'توہین' کی ہے۔

ریڈیو سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ دہلی میں کسان مظاہرین کی جانب سے 26 جنوری کو بھارتی پرچم کی توہین کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کے اس منفی رویے کی وجہ سے ملک کو بہت دکھ پہنچا۔

خیال رہے کہ بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر تاریخی لال قلعہ پر چڑھائی کرنے والے ہزاروں کسانوں نے ایک مرتبہ پھر دارالحکومت کے باہر ڈیرے ڈال دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: شدید احتجاج کے باوجود متنازع زرعی بل قانون بن گیا

دو ماہ سے جاری اس احتجاج کے سب سے پرتشدد دن دو روز قبل مظاہروں میں ایک شخص ہلاک اور 80 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔

احتجاج کرنے والے کاشتکار چاہتے ہیں کہ حکومت زرعی اصلاحات سے متعلق 3 نئے قوانین کو واپس لے۔

کسانوں کے رہنماؤں نے مقامی پولیس اور سیاست دانوں پر الزام لگایا کہ وہ کسانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کسانوں کے احتجاج کا باعث بننے والے نئے زرعی قوانین پر سماعت کے لیے پینل تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے قانون پر غیر معینہ مدت تک حکم امتناع جاری کرچکی ہے۔

رواں سال کے شروعات میں قانون سازی کی گئی تھی جس کے مطابق کسانوں کو اپنی فصل ریاست کے مقرر کردہ نرخوں پر مخصوص مارکیٹس میں فروخت کے بجائے اپنی مرضی سے کسی کو بھی کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کی آزادی ہوگی۔

مزید پڑھیں: بھارت: پرتشدد احتجاج کے بعد کسانوں نے دوبارہ نئی دہلی کے باہر ڈیرے ڈال دیے

وزیراعظم نریندر مودی نے اسے 'زراعت کے شعبے میں مکمل تبدیلی' قرار دیتے ہوئے سراہا تھا جو 'لاکھوں کسانوں' کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری سرمایہ کاری اور جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

تاہم بھارتی پنجاب میں حکومت کرنے والی اور اپوزیشن کی اہم جماعت کانگریس نے اس احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے بحث کی کہ اس تبدیلی نے کسانوں کو بڑی کارپوریشن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کا کہنا تھا کہ 'تقریباً 2 ماہ سے پنجاب میں کسان کسی مسئلے کے بغیر پرامن احتجاج کر رہے تھے'۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کو درپیش اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومتی عہدیداران اور کسانوں کی یونین کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے 6 ادوار ناکام ہوچکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں