میانمار میں فوج اقتدار پر قابض، آنگ سان سوچی زیرحراست

اپ ڈیٹ 01 فروری 2021
آنگ سان سو چی میانمار کے صدر ون مائنٹ، دیگر این ایل ڈی رہنماؤں کو صبح سویرے حراست میں لیا گیا، منتخب جماعت کے ترجمان میو نیونٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی
آنگ سان سو چی میانمار کے صدر ون مائنٹ، دیگر این ایل ڈی رہنماؤں کو صبح سویرے حراست میں لیا گیا، منتخب جماعت کے ترجمان میو نیونٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی

میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور نوبل انعام یافتہ رہنما آن سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے انہیں اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری ایک بیان کے مطابق فوج نے کہا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس سے فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: میانمار :’فوج مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف‘

فوجی ترجمان نے مزید تبصرہ کرنے کے لیے فون کالز کا جواب نہیں دیا۔

دارالحکومت نیپیداو اور اہم تجارتی مرکز ینگون کے لیے فون لائنز تک رسائی نہیں ہوسکی اور پارلیمنٹ کی پہلی نشست سے قبل سرکاری ٹی وی کو بھی بند کردیا گیا۔

واضح رہے کہ نومبر میں این ایل ڈی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جسے آنگ سان سو چی کی جمہوری حکومت کے لیے ریفرنڈم کے طور پر دیکھا گیا۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ فوجی اہلکاروں نے ینگون کے سٹی ہال میں پوزیشن سنبھال لی ہیں اور این ایل ڈی کے گڑھ میں موبائل انٹرنیٹ ڈیٹا اور فون سروسز بھی متاثر ہیں۔

نیٹ ورک بلاکس نے بتایا کہ انٹرنیٹ رابطے میں بھی ڈرامائی انداز میں کمی واقع ہوئی ہے۔

این ایل ڈی کے ترجمان میو نیونٹ نے فون کے ذریعے بتایا کہ آنگ سان سو چی، میانمار کے صدر ون مائنٹ اور دیگر این ایل ڈی کے رہنماؤں کو صبح سویرے 'حراست میں لیا گیا'۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوج کے مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافی رہا

انہوں نے کہا کہ 'میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ردعمل نہ دیں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قانون کے مطابق کام کریں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ خود بھی گرفتار ہوجائیں گے بعد ازاں ان سے بھی رابطہ نہ ہوسکا تھا۔

یہ حراست سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی ہے جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔

ادھر وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ صدر جو بائیڈن کو آنگ سان سوچی کی گرفتاری سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔

ترجمان جین ساساکی نے ایک بیان میں کہا کہ 'امریکا حالیہ انتخابات کے نتائج کو ردوبدل کرنے یا میانمار میں جمہوری منتقلی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرتا ہے اور اگر ان اقدامات کو واپس نہ لیا گیا تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی'۔

بغاوت کا خوف

نوبل امن انعام یافتہ 75 سالہ آنگ سان سو چی 2015 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار میں آئی تھیں جس کے بعد وہ جمہوریت کی جدوجہد میں کئی دہائیوں تک نظربند رہیں جس نے انہیں بین الاقوامی آئیکون میں تبدیل کردیا تھا۔

2017 میں میانمار کی مغربی رخائن ریاست میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے ان کے بین الاقوامی امیج کو کافی نقصان پہنچا تھا تاہم وہ مقامی سطح پر مقبول ہیں۔

سیاسی کشیدگی گزشتہ ہفتے اس وقت بڑھ گئی جب ایک فوجی ترجمان نے نئی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بغاوت کو مسترد کرنے سے انکار کردیا اور فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ نے آئین ختم کیے جانے کے امکان کو بڑھا دیا تھا۔

تاہم فوج نے ہفتے کے آخر میں سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 'آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کرے گی'۔

مزید پڑھیں: میانمار: لاپتہ فوجی طیارے کا ملبہ مل گیا

گزشتہ ہفتے چند گلیوں میں ٹینکوں کو تعینات کیا گیا تھا اور پارلیمنٹ کی پہلی نشست سے قبل چند شہروں میں فوج کی حمایت میں مظاہرے ہوئے تھے۔

میانمار کے الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی دھوکا دہی کے فوج کے الزامات کو مسترد کردیا۔

فوجی حکمرانی کے کئی دہائیوں کے بعد 2008 میں سامنے آنے والے آئین میں آنگ سان سوچی کی انتظامیہ کی تین اہم وزارتیں اور پارلیمنٹ میں 25 فیصد نشستیں فوج کے لیے مختص ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں