ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی نظر بندی میں ایک روز کی توسیع

اپ ڈیٹ 01 فروری 2021
معاون وکیل نے کہا کہ عمر شیخ دس ماہ سے غیرقانونی حراست میں ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
معاون وکیل نے کہا کہ عمر شیخ دس ماہ سے غیرقانونی حراست میں ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں نامزد سزا یافتہ ملزم احمد عمر شیخ کی نظر بندی کے حکم میں ایک روز کی توسیع کردی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے عمر شیخ کی جانب سے رہائی کے باوجود بدستور قید کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو کل تک ملزمان کو رہا کرنے سے روک دیا اور قرار دیا کہ سندھ حکومت ملزمان کو حراست میں رکھنے کا مزید حکم نامہ بھی جاری نہیں کر سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی عمر شیخ کے خلاف قانونی کارروائی کی پیشکش

سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل فار پاکستان خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ عدالت نے قتل کے مرکزی مقدمے میں وفاق کو نوٹس جاری نہیں کیا، جہاں قانون کی تشریح کرنا ہو وہاں اٹارنی جنرل کو نوٹس لازمی ہوتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت سے جاننا چاہتے ہیں کیا کسی شہری کو یوں حراست میں رکھا جا سکتا ہے؟

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا اور سندھ ہائی کورٹ سے بھی مقدمے کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔

احمد عمر شیخ کی پیروی کرنے والے وکیل محمود شیخ کے معاون نے عدالت کو بتایا کہ محمود شیخ بیمار ہیں، ان کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا ہے رپورٹ کا انتظار ہے، بہتر ہوگا سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی جائے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ کا مرکزی ملزم عمر شیخ کی رہائی کا حکم

معاون وکیل نے مزید کہا کہ عمر شیخ دس ماہ سے غیرقانونی حراست میں ہیں۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ فکر نہ کریں محمود شیخ کو سن کر ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مرکزی اپیلوں کی آرڈر شیٹ کا جائزہ لیا جائے گا، بعدازاں سپریم کورٹ نے عمر شیخ کی نظر بندی کے عبوری حکم میں ایک دن کی توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور ڈینیئل پرل کے والدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کو بری اور رہا کرنے کے حکم کے خلاف دائر درخواستوں پر عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم حکومت سندھ کی جانب سے اگلے ہی روز اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل بھی دائر کردی گئی تھی۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ 2020 میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔

تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر

چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔

تاہم 25 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ 'پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز' کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

جن پر 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے ایک کے مقابلے 2 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں