اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران خزانے پر بوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے انہیں نکالیں، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 04 فروری 2021
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس نے اسٹیل ملز کے ملازمین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران حکام پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران خزانے پر بوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے انہیں نکالیں۔

ساتھ ہی عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر اور وزیر نجکاری میاں محمد سومرو کو طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اسٹیل مل ملازمین کی ترقیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، جہاں عدالت نے وزیر منصوبہ بندی، وزیر نجکاری اور وزیر صنعت و پیدوار کو طلب کیا تاہم وہ آج پیش نہ ہوسکے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسٹیل مل کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی؟

دوران سماعت چیف جسٹس نے پاکستان اسٹیل مل انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں، اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔

مزید پڑھیں: ’کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے آج اسٹیل مل تباہ ہوئی’

انہوں نے کہا کہ ملازمین سے پہلے تمام افسران کو اسٹیل مل سے نکالیں، اس پر وکیل پاکستان اسٹیل مل نے کہا کہ تمام انتظامیہ تبدیل کی جاچکی ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامیہ تبدیل کرنے سے کیا مل فعال ہوجائے گی؟ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی اسٹیل ملز منافع میں ہیں، اسٹیل مل میں اب بھی ضرورت سے زیادہ عملہ موجود ہے۔

اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ 1800 سے زائد افسران تھے 439 رہ گئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مل ہی بند پڑی ہے تو 439 افسران کیا کر رہے ہیں؟ اس پر وکیل نے پھر بتایا کہ اسٹیل مل کا یومیہ خرچ 2 کروڑ روپے تھا جو اب ایک کروڑ روپے رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک 49 فیصد ملازمین نکال چکے ہیں مزید یہ کہ اس کے لیے عدالتی اجازت درکار ہے، لیبر کورٹ کی اجازت کے بغیر مزید ملازمین نہیں نکال سکتے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اجازت براہ راست سپریم کورٹ دے گی لیکن آپ پہلے افسران کو نکالیں۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل کا کہنا تھا کہ اسٹیل مل ملازمین میں ہسپتال اور اسکولوں کا عمل بھی شامل ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بیوروکریسی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کوئی وفاقی سیکریٹری کام نہیں کر رہا، تمام سیکریٹریز صرف لیٹر بازی ہی کر رہے جو کلرکوں کا کام ہے، سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکریٹریز کو رکھا ہی کیوں ہوا ہے؟

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسٹیل مل کو بند کرنے کا حکم دینے کا عندیہ بھی دیا اور منصوبہ بندی، نجکاری کے سیکریٹریز کو بھی طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج سے کسی ملازم کو ادائیگی نہیں ہوگی، جب مل نفع ہی نہیں دیتی تو ادائیگیاں کس بات کی، ملازمین کو بیٹھنے کی تنخواہ تو نہیں ملے گی۔

اس موقع پر ملازمین کے وکیل نے کہا کہ اسٹیل مل ملازمین کام کرنے کو تیار ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل مل میں بعض لوگوں نے بھرتی سے ریٹائرمنٹ تک ایک دن بھی کام نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد میں کمی کیلئے 19 ارب روپے سے زائد کی ضمنی گرانٹ منظور

چیف جسٹس نے کہا کہ مل کا 212 ارب روپے کا قرض کون ادا کرے گا، انتظامیہ اور ملازمین کو ادارے کا احساس ہی نہیں، مفت کی دکان سے جس کا جی چاہتا ہے لے جاتا ہے، اسٹیل مل کو کسی بھی ملازم یا افسر نے اپنا خون نہیں دیا۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مل بند ہے لیکن ملازمین ترقیاں مانگ رہے ہیں، اسٹیل مل کبھی ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی تھی، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ ورکر اپنے پیسے لینے کے لیے ٹریک پر لیٹ جاتے ہیں۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل ملازمین نے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو حکومت چلائے۔

علاوہ ازیں عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری صنعت و پیداوار عدالت میں پیش ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹیل مل کی نجکاری ایڈوانس مرحلے میں داخل ہو چکی، رواں سال اگست میں نجکاری کا عمل ہوجائے گا، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 4 ہزار ملازمین، 212 ارب روپے کا قرض، ایسے کون اسٹیل مل خریدے گا، اسٹیل مل میں نوٹوں کی مشین نہیں لگی ہوئی۔

اسی دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ اسٹیل مل کے چیئرمین کہاں ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ چیئرمین بیرون ملک ہیں، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا اسٹیل مل کے چیئرمین سرکاری خرچ پر باہر ہیں؟ جس پر جواب دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ چیئرمین اپنے خرچ پر باہر گئے، تنخواہ بھی نہیں لے رہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سیکریٹری کو مخالف کرتے ہوئے کہا کہ آپ بابو والا کام نہیں افسر والا کام کریں، سیکریٹریز کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہی ملک کا ستیاناس ہوا، سیکریٹریز کو ڈر ہے کہیں نیب انہیں نہ پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکریٹریز کام کرتے تھے اب پتا نہیں کیا ہوگیا۔

بعد ازاں کیس کی سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کردیا گیا، جس کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو مذکورہ کیس میں وفاقی وزرا کے پیش نہ ہونے پر عدالت کو سرکاری وکیل نے بتایا کہ وزیر منصوبہ بندی اور وزیر نجکاری لاہور میں ہیں جبکہ وزیر صنعت و پیداوار کورونا وائرس کا شکار ہیں۔

جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر صنعت و پیدوار حماد اظہر، وزیر نجکاری میاں محمد سومرو کو طلب کرلیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے قرضے کے بعد مل کو بند کرنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں، جو بھی اسٹیل مل لے گا کھوکھلا کر کے چھوڑ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی ڈی سی کی تمام فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، کام کوئی نہیں کرتا پیسے مفت میں لیتے ہیں، ملک اسی وجہ سے دیوالیہ ہوگا بلکہ ہوگیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کے ہر ادارے کا حال اسٹیل مل جیسا ہے، ریلوے، پی آئی اے سمیت ہر ادارے میں حالات ایسے ہی ہیں، سب افسران اپنی ذاتی سروس کر رہے ملک کی کسی کو فکر نہیں۔

اس دوران وکیل اسٹیل مل شاہد باجوہ نے کہا کہ اسٹیل مل ملازمین نے سی ای او کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا ہے، سی ای او کے دروازے پر خواتین کو بٹھا دیا گیا ہے، ملازمین نے سی ای او کے گھر کے باہر ان کی قبر بھی کھودی ہوئی ہے، جس پر وکیل ملازمین یونین نے کہا کہ قبر علاماتی طور پر کھودی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: نجکاری کیلئے اسٹیل ملز کے ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی منظوری

عدالت میں سماعت کے دوران وکیل نیئر رضوی نے بتایا کہ اسٹیل مل کے 302 مقدمات میں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دیا ہوا ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 9 فروری کو وفاقی وزرا کو سن کر فیصلہ کریں گے۔

اسی دوران چیف جسٹس نے اسٹیل مل کے وکلا سے مکالمہ کیا اور کہا کہ مقدمات سے کیسے نمٹنا ہے اسٹیل مل کو بتائیں، اسٹیل مل کو ریسکیو کرنا عدالت کا کام نہیں، کیا ملازمین اسٹیل مل کا قرض اتار سکتے ہیں؟

اس پر وکیل یونین نے کہا کہ ادارہ تباہ کرنے والوں کو سزا دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل مل تباہ کرنے والوں میں ملازمین بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی ڈی سی کی تمام فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، پی آئی ڈی سی ملازمین بھی دس سال بند فیکٹری سے تنخواہ لیتے رہے، بند اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں دے کر ہی ملک دیوالیہ ہوا۔

بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی وزرا اسد عمر، حماد اظہر، محمد میاں سومرو، سیکریٹری منصوبہ بندی و نجکاری کو طلب کرتے ہوئے سماعت 9 فروری تک ملتوی کردی۔

عدالت نے کہا کہ اسٹیل مل کے معاملے پر حکومتی وزرا اور متعلقہ سیکریٹریز کو سننا چاہتے ہیں، 9 فروری کو وفاقی وزرا کو سن کر ہی فیصلہ کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں