قومی اسمبلی: حکومتی اراکین کے الزامات پر اپوزیشن کا احتجاج، آئینی ترمیم پر آج بھی بحث نہ ہوسکی

اپ ڈیٹ 04 فروری 2021
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی میں ایوان سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی میں ایوان سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان الزامات اور سخت جملوں کے تبادلے پر گزشتہ روز ایوان زیریں میں پیش کیے گئے سینیٹ انتخابات سے متعلق ترمیمی بل پر آج بھی بحث نہ ہوسکی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اراکین کے سنگین الزامات پر اسپیکر اسمبلی کے ڈائس کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے حکومت کی جانب سے کیے گئے توانائی کے معاہدوں پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیپٹو پلانٹس پر چلنے والی صنعتوں کی گیس کی سپلائی منقطع کر دی گئی ہے جس سے پاکستان کی تقریباً 900 انڈسٹریز کا پہیہ جام ہونے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ملک میں متبادل توانائی کے انحصار کو 20 فیصد تک کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں 15 سے 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے اور اگر انڈسٹریز کو بھی توانائی نہیں ملے گی حالانکہ ان سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں کیپٹو پلانٹس چلانے دیے جائیں گے تو اچانک حکومت نے ایسا اعلان کیوں کیا؟

شازیہ مری نے کہا کہ ملک میں بیروزگاری عروج پر ہے اور ان انڈسٹریز کے چلنے سے بیروزگاری میں بہتری آ سکتی ہے جبکہ ان انڈسٹریز کا بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ انہیں اپنے آرڈرز پورے کرنے ہیں اور ان بین الاقوامی آرڈرز کا انہیں جو نقصان ہو گا تو کیا حکومت نے اس کا کوئی تخمینہ لگایا ہے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ جو سوال ہے وہ آئی پی پیز کمیشن کے حوالے سے ہے، اس کا کیپٹو پاور پلانٹ لوڈ مینجمنٹ سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ہے لیکن میں جواب دوں گا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں بارودی سرنگیں چھوڑ کر گئی تھیں، عمر ایوب

ان کا کہنا تھا کہ جو توانائی کا شعبہ ہمیں ملا اس پر جو گردشی قرضے تھے وہ بارودی سرنگیں تھیں، اس کو ہمیں پہلے ختم کرنا تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں بارودی سرنگیں چھوڑ کر گئی تھیں۔

عمر ایوب نے ملک میں توانائی کے بڑھتے گردشی قرضوں کا ذمے دار مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کو قرار دیا— فوٹو: ڈان نیوز
عمر ایوب نے ملک میں توانائی کے بڑھتے گردشی قرضوں کا ذمے دار مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کو قرار دیا— فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ ہمیں 2013 میں سود اور انشورنس کی ادائیگی کی مد میں جو ضروری ادائیگی کرنی تھی وہ 185 ارب روپے تھی اور جب 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو سابقہ حکومت جو ٹائم بم لگا کر گئی تھی وہ اس رقم کو 468 ارب روپے پر لے کر چلے گئے تھے، یہ ادائیگیاں غلط معاہدوں کی وجہ سے کرنی پڑیں۔

یہ بھی پڑھیں: 2030 تک توانائی کے 60 فیصد کو کلین انرجی پر منتقل کرنے کا ہدف ہے، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 2020 میں یہ رقم 860 ارب روپے پر چلی گئی اور 2023 میں یہ رقم 1 ہزار 455 ارب روپے پر جائے گی۔

عمر ایوب کی گفتگو کے دوران ہی شازیہ مری سمیت اسمبلی اراکین نے احتجاج کرنا شروع کردیا۔

'بجلی چوروں کو پکڑا تو وزیر اعلیٰ کے دفتر سے حکم ملا کے ایف آئی آر درج نہ کریں'

عمر ایوب نے کہا کہ کیپٹو پاور پلانٹ پر لوگ اس لیے گئے کیونکہ ان کی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنے ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن سسٹم پر کوئی سرمایہ کاری ہی نہیں کی، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن سسٹم میں تقریباً 49 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی، ڈسٹری بیوشن سسٹم پر 74 ارب روپے خرچ کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ناقص کارکردگی کے حامل کیپٹو پاور پلانٹ قدرتی گیس استعمال کرکے بجلی پیدا کررہے ہیں، ہم نے انہیں آپشن دیا کہ یکم فروری سے نیشنل گرڈ پر منتقل ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری کی جا رہی ہے اور جب ہم ان بجلی چوری کرنے والے بڑے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو انہی کی پارٹی کے لوگ سامنے آتے ہیں اور جب ہم نے سندھ میں بڑے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا تو وزیراعلیٰ کے دفتر سے حکم ملا کہ آپ ایف آئی آر نہ درج کریں، ہم نے آئی جی کو یہاں بلا کر ایف آئی آر درج کرائی۔

ہمیں بتائیں پاکستان میں 10 جنوری کو بلیک آؤٹ کیوں ہوا تھا، شازیہ مری

شازیہ مری نے کہا کہ یہ سوال توانائی کے حوالے سے تھا، اگر پاکستان میں عوام مفاہمتی یادداشتوں کا اچار ڈالیں گے، چولہے ان کے بجھے ہوئے ہیں، انڈسٹریز کا پہیہ آپ جام کررہے ہیں، کیپٹو پلانٹس کو آپ وعدے کے مطابق گیس نہیں دے رہے، پاکستان کو آپ نقصان پر نقصان پہنچا رہے ہیں، ریکارڈ 3 کھرب کے گردشی قرضے اس نااہل حکومت کی وجہ سے ہیں، کون کرپشن کررہا ہے جو گردشی قرضے بڑھے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: ڈان نیوز
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے سوال کیا کہ ہمیں بتائیں کہ پاکستان میں 10 جنوری کو بلیک آؤٹ کیوں ہوا، پاکستان ادھیروں میں کیوں ہے، ہم یہاں بھاشن سننے نہیں آئے، ہم یہاں آپ کا لیکچر سننے نہیں آئے۔

اپوزیشن کا احتجاج اور نعرے بازی

اس موقع پر اپوزیشن بالخصوص پیپلز پارٹی کے اراکین نے سیٹیاں اور ڈیسک بجا کر گو عمران گو کے نعرے لگانے شروع کر دیے جبکہ عمر ایوب پر طنزیہ لوٹے لوٹے کے جملے بھی کسے گئے۔

مزید پڑھیں: گزشتہ سال پاکستان میں کرپشن بڑھی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

ان کا کہنا تھا کہ میں مسلم لیگ (ن) کو 40 ہزار سے زیادہ ووٹس سے شکست دے کر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر آیا ہوں، آگے بھی لڑنا چاہتے ہیں تو لڑ لیں، آگے بھی شکست ہی ہو گی۔

پیپلزپارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے کہا کہ یہاں ایک ایسا لوٹا ہے جو پہلے مسلم لیگ (ق) میں تھا، پھر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو کر پہلے والی جماعت کو برا کہنے لگا، اب پی ٹی آئی میں ہے تو مسلم لیگ (ن) کو برا کہہ رہا ہے، اس ایوان میں سب سے بڑا لوٹا سوالات کے درست جواب نہیں دیتا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک اہم کتاب: 'ذوالفقار علی بھٹو'

اس کے جواب میں عمر ایوب نے کہا کہ میرے گھر میں موجود کتاب میں ایک لفظ زلفی لکھا ہوا ہے جو ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا، وہ ان کی جماعت کا سیکریٹری جنرل تھا مگر انہیں نااہلی کی وجہ سے کابینہ سے نکالا گیا تھا، یاد رکھیں زلفی صدر ایوب خان کی کابینہ میں تھا اور نااہلی پر نکالا گیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے کتنی پارٹیاں بدلیں وہ بھی پتا کرلیں۔

اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کر لیا اور پوسٹر لے کر اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کرنے لگے۔

وزیر خارجہ کا پیپلز پارٹی پر مسلم لیگ (ن) کو استعمال کرنے کا الزام

اس موقع پر وزیر خارجہ نے پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ وکٹ کی دونوں طرف کھیلنے کے عادی ہیں، مراد سعید کھڑا ہو تو واک آؤٹ کر جاتے ہیں، ان میں سننے کا حوصلہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسلم لیگ (ن) کو استعمال کرکے جمہوریت کے علمبردار بن جاتے ہیں، یہ دوغلے ہیں اور اگر یہ رویہ ہو گا تو ہاؤس اس طرح نہیں چلے گا، نہیں چلے گا تو پھر نہیں چلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بلڈوز کر دیں گے تو ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، بہت ہو گیا، ہم نے بہت برداشت کیا ہے، بہت لحاظ کیا ہے لیکن انہیں روایات کا کوئی خیال نہیں ہے، کوئی تمیز نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر یہ بات کرنا چاہتے ہیں تو بات سننی بھی ہو گی، اگر بات نہیں سننا چاہتے تو یکطرفہ بحث نہیں ہو سکتی، یہ قابل قبول نہیں اور جمہوری روایات کے برعکس ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر اسمبلی قاسم سوری نے حکومتی بینچ کے رکن عامر ڈوگر کو ہدایت کی کہ وہ اپوزیشن سے بات کریں، اگر یہ ماحول ہے تو بحث کرانا کوئی معنی نہیں رکھتا، اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ ایوان کے دونوں جانب حوصلے سے تقریر سنی جائے گی تو ہی معنی خیز بحث ہو سکے گی۔

شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران کچھ دیر دوبارہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے معزز جج صاحبان کی رائے طلب کی کہ کیا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہو سکتے ہیں یا ان پر بھی سیکرٹ بیلٹ کی قدغن لگتی ہے کیونکہ ہمارے آئینی ماہرین کی نظر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں مسئلہ زیر بحث ہے اور مجھے اُمید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس پر غور کر کے اس پر اپنے فیصلے صادر کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دوسرا راستہ یہ تھا کہ ہم آئین میں ترمیم کریں اور ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ ہمارے پاس اکثریت نہیں ہے لیکن ہم نے اس کے باوجود یہ بل اس لیے پیش کیا کیونکہ یہ میثاق جمہوریت کے علمبردار اور شفاف انتخابات کے دعویداروں کو بے نقاب کیا جائے اور قوم دیکھے کہ ان کے اصلی دانت کیا ہیں کیونکہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور دیکھانے کے اور ہوتے ہیں؟

وزیر خارجہ نے کہا کہ قوم دیکھ رہی ہے کہ ان کے کہنے اور کرنے میں تضاد بے نقاب ہو گیا، ان کے کہنے اور کرنے میں تضاد ہے، یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر مسلم لیگ (ن) منقسم

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے حلیف آج اپنا مقدمہ پاکستان کے عوام کی کچہری میں رکھ رہے ہیں اور ہم لوگوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ کو سینیٹ میں چور چاہئیں یا ایسے اراکین چاہئیں جو پاکستان کے وفاق کا دفاع کریں گے، قوم نے اس کا انتخاب کرنا ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے آئینی ترمیم پیش کرنے جا رہے ہیں، شاہ محمود

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی پاکستان کا سرمایہ ہیں، تو آج ہماری معیشت کو جتنا سہارا انہوں نے دیا ہے، ہماری ایکسپورٹ سے زیادہ ہمیں ترسیلات زر مل رہی ہیں، وہ قابل قدر پاکستانی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان پاکستانیوں کو پاکستان کے عملی سیاسی نظام میں ایک موقع ملنا چاہیے اور ان کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ہم آئینی ترمیم کے ذریعے گنجائش پیدا کرنے جا رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم ان کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ ملک سے باہر رہتے ہوئے بھی پاکستان کی خدمت کریں اور اگر ان کے پاس ایسی مہارت موجود ہے تو ان کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ پاکستان کی خدمت بھی کر سکیں گے، تو ہم نے یہ بل بھی پیش کردیا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے، یہ ہماری انتخابی اصلاحات کا حصہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں آج دیکھ لو کہ تحریک انصاف تمہارے لیے دروازے کھولنا چاہتی ہے اور یہ لٹیروں کا ٹولہ تمہارے راستے بند کرنا چاہ رہا ہے، یہ بل پاس ہو یا نہ ہو لیکن ہم اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہیں گے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق وزیراعظم کا اہم انکشاف

انہوں نے کہا کہ آج پوری قوم کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے، آج یہ چہرے بے نقاب ہو گئے اور اصلیت سامنے آ گئی، یہ وہی لوگ ہیں جو استعفے دینے کے لیے آئے تھے اور ہھر استعفیٰ دیتے دیتے راتوں رات پتا نہیں کیا ہوا، وہ راز ہے اور میں راز کھولنا نہیں چاہتا کہ وہ زاویہ تبدیل کیسے ہو گیا، ان کے مؤقف میں اتنی لچک کیسے پیدا ہو گئی، وہ منہ پر مارنے والے آج منہ کی کھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سنا ہے کہ آج بیٹھک ہو گی، بیٹھک میں آج نئے لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا، ہم کسی لانگ مارچ سے نہیں ڈرتے، ہم عوام کی طاقت اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور جمہوری انداز میں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق، پاکستان کے آئین اور پارلیمان کے وقار کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور کریں گے۔

'پیپلز پارٹی والے ایک سابق وزیراعظم کو سینیٹ میں لانا چاہتے ہیں'

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں یاد ہے کہ آئے دن تقاریر کی جاتی تھیں کہ یہ اپوزیشن جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے پر تلی ہوئی ہے، یہ اپوزیشن جمہوریت کی قاتل ہے اور آج قوم دیکھ رہی ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے والے چہرے کون سے ہیں، ادھر ہیں یا ادُھر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سنا ہے کہ پیپلز پارٹی والے ایک سابق وزیراعظم کو سینیٹ میں لانا چاہتے ہیں اور سنا ہے سودے کررہے ہیں کہ سندھ سے لے لو، پنجاب سے دے دو، پنجاب سے لے لو، سندھ سے دے دو اور سنا ہے فیصلہ کر چکے ہیں کہ کسی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانا ہے، پنجاب میں ان کے پاس عددی اکثریت ہی نہیں ہے کہ وہاں سے پیپلز پارٹی اپنا سینیٹر منتخب کرا سکے، اگر ان کے پاس وہ عددی اکثریت نہیں ہے تو پھر پنجاب میں سینیٹ کی درخواست خرید و فروخت کے بل بوتے کے سوا اور کیسے حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے آگے بند باندھنے کے لیے ہم یہ بل لے کر آئے ہیں تاکہ آپ کی کرپٹ سرگرمیوں کو قوم دیکھ سکے۔

انہوں نے کہا کہ آج قوم کو فیصلہ کرنا ہے، آج منتخب نمائندؤں کا امتحان ہے کہ آپ نے شفافیت کو ترجیح دینی ہے، آپ نے جمہوریت کا ہاتھ تھامنا ہے یا آپ نے چوروں کی پشت پناہی کرنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا سینیٹ انتخابات سے متعلق آئینی ترمیمی پیکیج لانے کااعلان

شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ آج ہم کسی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) یا جے یو آئی والے کو اس بل پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

نواز شریف تو اسامہ بن لادن کے بھی ایک کروڑ ڈالر کھا گئے، فواد چوہدری

اس کے بعد فواد چوہدری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل جب یہ جھگڑا شروع ہوا تو مسلم لیگ(ن) کی طرف سے رانا تنویر، ایاز صادق اور پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف اور نوید قمر وہاں تشریف لائے اور یہ بات طے ہوئی کہ اپوزیشن کو دو تقاریر دی جائیں گی اور حکومت ایک تقریر کرے گی۔

فواد چوہدری قومی اسمبلی میں اظہار خیال کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری قومی اسمبلی میں اظہار خیال کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ جب وہ واپس چیمبر میں آئے تو لندن اور جاتی امرا سے انہیں ایک کال موصول ہوئی جس میں باپ اور بیٹی نے ایاز صادق اور رانا تنویر کو جھڑکیں دیں کہ آپ کی یہ معاہدہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اس احتجاج کی قیادت کرنے والے مرتضیٰ جاوید عباسی تو استعفیٰ دے چکے تھے، مریم نواز نے مرتضیٰ عباسی اور اپنے دیور صفدر اعوان کے بھائی کو کہا کہ اپنے استعفے دے دو اور اسپیکر کے منہ پر مار دو اور دونوں آپ کے پاس آ کر آپ کے پاؤں میں بیٹھ گئے کہ ہم نے استعفے نہیں دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پیپلز پارٹی بالخصوص شازیہ مری کا مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ جس طرح سے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو استعمال کیا ہے، چور چور کے سارے پوسٹر شازیہ مری بنا کر لائی ہیں اور چوروں کے ہی ہاتھ میں دے دیئے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ قائد سے لے کر کارکنوں تک ساری ہی چوروں اور ڈاکوؤں کی پارٹی ہیں لہٰذا ہمیں نہ بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے یہاں دو چار لوگ ایسے آ گئے ہیں جو سرگودھا وغیرہ میں ٹرک وغیرہ چلاتے تھے، انہیں پتا ہی نہیں ہے کہ ایوان کیا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے جبکہ ایک صاحب نے جوتا تک لہرایا یعنی جس کو اپنے گھر میں کسی نے تمیز نہیں سکھائی وہ ایوان میں پہنچ گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش

ڈپٹی اسپیکر نے ایک مرتبہ پھر عامر ڈوگ کو ہدایت کی کہ وہ راجا پرویز اشرف سمیت احتجاج کرنے والے اپوزیشن اراکین سے مذاکرات کریں۔

تاہم فواد چوہدری نے کہا کہ ان سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ ان کی ڈوریں ایوان کے اندر ہل ہی نہیں رہی ہیں، یہ تو کٹھ پتلی ہیں، کسی کی ڈوریں لندن میں ہیں، کسی کی کراچی میں ہیں اور وہ جو ایوان کے باہر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں ان کٹھ پتلیوں کی تاریں ہلاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی شق نمبر 23 کہتی ہے کہ سینیٹ الیکشن شفاف ہو گا لیکن آج بلاول بھٹو، نوید قمر، شازیہ مری آج اتنی جرات ہو گئی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے لکھے ہوئے الفاظ کے خلاف جا رہے ہیں، بے نظیر بھٹو کے نام پر الیکشن جیتتے ہیں، یہ لوگ اور ان کی اپنی ٹکے کی حیثیت نہیں ہے، ان کا اپنا حال تو یہ ہے کہ ان کو اپنے خاندان میں نام بدلنے پڑتے ہیں، نام بھٹو رکھنا پڑتا ہے اور نظیر بھٹو کے نام سے جو لکھا ہوا ہے یہ اس پر غداری کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ جو خریدے جاتے ہیں اسے چھانگا مانگا کی سیاست کہا جاتا ہے یہ میاں نواز شریف ان کے دائیں اور بائیں بیٹھے لوگ لے کر آئے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد سے ایک کروڑ ڈالر لے لیے اور جس اسامہ بن لادن سے دنیا ڈرتی تھی، یہ نواز شریف اس کے پیسے بھی کھا گئے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں'

ان کا کہنا تھا کہ جس ترمیم سے شفافیت آئے یہ کبھی بھی ایسی ترمیم کو سپورٹ نہیں کریں گے، اس کے حق میں ووٹ نہیں دیں اور آج ثابت ہو گیا کہ پاکستان تحریک انصاف تاریخ کی صحیح طرف کھڑی ہے اور یہ لوگ ہمیشہ کی طرح تاریخ کی غلط سائیڈ پر کھڑے ہیں۔

سینیٹ الیکشن بھی ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسا کسی کوٹھے پر نظر آتا ہے، اسد عمر

اس کے بعد وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل کہتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کے اوپر جو کالا دھبہ ہے کیونکہ یہ اپنی تقریروں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ لوگوں نے بولی لگائی، ایم پی اے خریدے، ایم این اے خریدے اور سینیٹر بکاؤ مال بن کر آئے، کیا جمہوریت طاقت استعمال کر کے مضبوط ہو سکتی ہے۔

اسد عمر نے بھی اپنی تقریر میں اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا — فوٹو: ڈان نیوز
اسد عمر نے بھی اپنی تقریر میں اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا — فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ کیا کبھی جمہوریت اس ملک میں مضبوط ہوسکتی ہے جہاں معاشرے میں رہنے والے یہ دیکھیں کہ جو لوگ میرے لیے قوانین بنا رہے ہیں، جو لوگ ملک کی رہنمائی کرنے کے لیے کوشش کررہے ہیں، ان کی قیمت چند ٹکے ہے اور آپ ان کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں انہوں نے کہا ہے کہ ممبر بکتے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی پر اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر الزام لگائے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن بھی ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسا کسی کوٹھے پر نظر آتا ہے، کیا اس نظام کو بدلنا نہیں چاہیے، پاکستان کا قیام ایک جمہوری نظام کے ذریعے عمل میں آیا، کیا اس ملک میں ایک ایسا جمہوری نظام نہیں ہونا چاہیے جس پر اس ملک کے لوگوں کو اعتماد ہو۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

اسد عمر نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو جائے، نیا پاکستان بننے جا رہا ہے، عوام کا پاکستان اور حقیقی نمائندوں کا پاکستان بننے جا رہا ہے، بکرا منڈی بند ہونے جا رہی ہے۔

عمران خان صاحب، آپ کو خوش کرنے والے آپ کو خراب کرنے جا رہے ہیں، راجا پرویز اشرف

سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ میں کل سے بات کرنا چاہ رہا ہوں، چار مرتبہ مجھے فلور دے کر واپس لے لیا گیا اور اپوزیشن کو آئینی ترمیم جیسے اہم معاملے پر بات کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ ایوان کے سینئر ترین رکن نوید قمر نے جب جا کر احتجاج کیا تو حکومت کے لوگوں نے نہ صرف ان کو ننگی گالیاں دیں بلکہ ان پر حملہ آور بھی ہوئے۔

سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف قومی اسمبلی میں اظہار خیال کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف قومی اسمبلی میں اظہار خیال کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

اسپیکر کے ڈائس کا گارڈز نے گھیراؤ کر لیا جس پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اسپیکر صاحب آپ کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ آپ کو ان سے خطرہ ہونا چاہیے، ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں، آپ گارڈز ہٹا دیں۔

حکومتی اراکین نے کورم نامکمل ہونے کی نشاندہی کی جس کے بعد دوبارہ گنتی کی گئی اور ڈپٹی اسپیکر نے کورم کو مکمل قرار دیا جس کے بعد راجا پرویز اشرف نے دوبارہ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں 18ویں ترمیم کرنی تھی لیکن ہمارے پاس نمبرز پورے نہیں تھے اور جب نمبرز نہیں تھے تو ہم نے تمام پارٹیوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی اور انہیں چیئرمین منتخب کرنے کا اختیار دیا جس کے چیئرمین رضا ربانی منتخب ہوئے اور اس طریقے سے ہم ترامیم کیں۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کی سینیٹ انتخابات پر قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے فیصلے پر تنقید

ان کا کہنا تھا کہ میں عمران خان سے بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ آپ کو جو لوگ خوش کررہے ہیں اور آپ سے داد وصول کرنے کے لیے پارلیمان کا ماحول خراب کررہے ہیں، خدا کے لیے ان کی باتوں پر نہ جائیں، انہوں نے سب کو خراب کیا، انہوں نے آصف زرداری کو خراب کیا، نواز شریف کو خراب کیا، مشرف کو خراب کیا، چوہدریوں کو خراب کیا اور اب آپ کو کرنے جا رہے ہیں، جلد آپ کو پتا چل جائے گاکہ اصل کون اور نقل کون ہے۔

'تم اگر مجھے رینٹل کہتے ہو تو میں چار روپے کا یونٹ دیتا تھا، تم 26 روپے کا یونٹ دیتے ہو'

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ تم یاک نہ ایک شوشہ چھوڑتے ہو، کبھی تم ایک ترمیم لے کے، کبھی کوئی قانون سازی کرکے ایسا کرتے ہو تاکہ عوام سمجھ نہ سکیں کہ تم نے بجلی کے ساتھ کیا کیا، تم نے بجلی کی قیمتی بڑھائیں، تم اگر مجھے رینٹل کہتے ہو تو میں چار روپے کا یونٹ دیتا تھا، تم 26 روپے کا یونٹ دیتے ہو، شرم کرو، شرم اگر کہیں بازار سے ملتی تو میں انہیں لے کر دے دیتا۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما نے شاہ محمود قریشی کی جانب سے تقریر کے بعد فواد چوہدری کو فلور دینے اور فواد چوہدری کی جانب سے اسد عمر کو فلور دینے پر سوال اٹھاتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر سے سوال کیا کہ آپ نے اس معاملے پر اعتراض کیوں نہیں کیا، اسپیکر تو آپ ہیں، فلور تو آپ نے دینا ہے، یہ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا یا ایوان میں ترمیم پیش ہو رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے ایسا ماحول بنانا ہے کہ جس میں ہم بیٹھ کر بات کر سکیں لیکن لڑائی، ننگی گالیاں اور دشنام طرازی کریں گے تو پھر سمجھ آ جاتا ہے کہ آپ ترمیم نہیں کرنا چاہتے، کل 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر ہے، آپ کو کشمیر کی کوئی بات نہیں کرنی کیونکہ آپ نے کشمیر کا سودا کردیا ہے، کشمیر بیچ دیا ہے اور پاکستان کے عوام کو آپ دھوکا دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت نااہلی اور نکمے پن کی تمام سرحدیں عبور کر چکی ہے، اگر یہ عوام کو مل جائیں تو ان کا تیا پانچہ ہو جائے گا، عمران خان بجلی کے بل دکھا کر کہا کرتا تھا کہ پھاڑ دو، کہتا تھا کہ مہنگائی ہو تو وزیر اعظم چور ہے تو آج وزیر اعظم چور ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کا سینیٹ انتخابات کیلئے پی ٹی آئی کے 25 ایم این ایز سے رابطوں کا دعوٰی

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو ڈراما دکھانے اور اپوزیشن کو بدنام کرنے کے لیے جو ترمیم پیش کی گئی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری رائے لیں، پارلیمانی کمیٹی بنائیں، اس کا ایک متفقہ چیئرمین بنائیں اور بات بڑھائیں، قانون دانوں سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو بلائیں اور بات کریں، اگر یہ ملک کے حق میں ہے تو یہ ترمیم ضرور ہونی چاہیے۔

حکومتی اراکین ترمیم پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہوں نے ایڈوانس پکڑ لیا ہے، سابق وزیر اعظم

سابق وزیر اعظم نے حکومتی اراکین قومی اسمبلی پر الزام لگا کہ وہ آئینی ترمیم پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہوں نے ایڈوانس پکڑ لیا ہے، ہم تو بات کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں بدنام کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ گلی گلی تمہارا استقبال کرے گی اور جب ہم اسلام آباد آئیں گے تو پھر آپ کو کہیں پناہ نہیں ملے گی، آپ ہمیں نظر ہی نہیں آئیں گے اور ہم آپ کو ڈھونڈ کر نکالیں گے۔

راجا پرویز اشرف نے حکومتی اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال سے آپ سینیٹ الیکشن ہار چکے ہیں اور اگر آپ سینیٹ میں ترمیم پیش کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس کا طریقہ کار موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے، انہیں پتا ہے یہ پاس نہیں ہو سکتی اور الیکشن سیکرٹ بیلٹ پر ہو گا۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر نے آئینی ترمیم کے حوالے سے گفتگو شروع کی تو مسلم لیگ (ن) کے خرم دستگیر نے کورم کی نشاندہی کردی اور کورم نا مکمل ہونے پر اجلاس کو ملتوی کردیا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے صدر مملکت عارف علوی کا ہدایت نامہ پڑھتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں