سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش

اپ ڈیٹ 03 فروری 2021
وزیر قانون فروغ نسیم نے بل پیش کیا—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون فروغ نسیم نے بل پیش کیا—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جہاں اپوزیشن نے مخالفت کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی۔

سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے حکومت کی طرف سے وزیر قانون فروغ نسیم نے 26 ویں آئین ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا جس پر اپوزیشن اراکین نے ایوان میں شدید نعرے بازی کی اور ڈیسک بجا کر احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں'

وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ سینیٹ میں انتخابات اوپن بیلٹ سے ہونے چاہئیں، آئین میں ترمیم کرنا آئین شکنی ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، ہم آئین میں ترمیم کررہے ہیں الیکشن چوری نہیں کررہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ایوان کو چلانے کے لیے ضابطوں کی ضرورت ہے، آج 13 دن سے اجلاس چل رہا ہے اور ان 13 دنوں میں 10 گھنٹے کارروائی چلی ہو گی۔

اپوزیشن نے ترمیمی بل کی مخالفت کی—فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن نے ترمیمی بل کی مخالفت کی—فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت اگر اپوزیشن کی تنقید برداشت نہیں کرے گی تو اپوزیشن گلیوں اور چوراہوں میں احتجاج کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، مہنگائی روز بڑھ رہی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ایک وزیر نے یہاں بیان دیا کہ 250 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں، سرکاری ملازمین احتجاج کر رہے ہیں، اسٹیل مل کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک نہیں دیا جا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ کسان اس ملک میں رو رہا ہے، کیا حکومت انتظار کر رہی ہے کہ کسان ٹریکٹر لے کر دہلی کی طرح یہاں آجائیں۔

حکومت کے آئینی ترمیمی بل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کو قائمہ کمیٹی میں 20 منٹ میں پاس کروایا گیا۔

قومی اسمبلی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے، پیٹرول مہنگا کر دیا گیا، لگتا ہے ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

انہوں نے کہا کہ تمام یونیورسٹیاں شدید مالی خسارے کا شکار ہوچکی ہیں، جہاں تنخواہوں کے پیسے نہیں وہاں کیا تعلیم اور تحقیق ہو گی۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہسپتال مسلسل بحران کا شکار ہیں، ہماری ایوی ایشن کی صنعت بیٹھ گئی ہے جبکہ مذکورہ وزیر ایوان کو مس گائیڈ کرتے ہیں، ایوان کو گمراہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر ہوابازی سے کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ وہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، اسٹیل ملز ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک بھی نہیں دیا جا رہا۔

اسپیکر پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سال میں مسلم لیگ (ن) کے ایک بھی توجہ دلاو نوٹس کو نہیں لیا گیا، ایوان یکطرفہ نہیں چل سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے 20 ارکان اسمبلی سے پرویز مشرف کی اسمبلی کو پتا لگ گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ٹی وی پر ہماری کردار کشی کرتے ہیں، وزیر اعظم بتائیں کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں شفافیت کہاں چلی گئی تھی، اس وقت ہاؤس ٹریڈنگ وزیر اعظم ہاوس سے ہو رہی تھی، اب اپنے ارکان کا ووٹ نہ دینے کا خوف ہے تو شفافیت یاد آگئی۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت والوں کو سینیٹ میں لانا ہے تو سمندر پار پاکستانیوں کو کہانی سنائی جا رہی ہے، فرینڈز آف عمران خان کے لیے قانون سازی یا آئین سازی نہیں ہو سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کی سینیٹ انتخابات پر قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے فیصلے پر تنقید

انہوں نے کہا کہ برما میں آنگ سانگ کی حکومت گئی تو یہاں بھی مانگ تانگ کی حکومت نہیں رہ سکے گی، جتنی دیانت حکومت میں ہے اتنی اپوزیشن میں بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 70 ارب کی کمیشن کا الزام لگانے والوں نے ابھی تک کوئی کمیشن نہیں بنایا، مجھ پر الزام دراصل چین پر الزام ہے، میڈیا ٹرائل کے دوران الزام لگا دیا جاتا ہے۔

حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی کرپشن جائز کرنے کے لیے رولز بدل دیے جاتے ہیں، وزیر اعظم نے اگر کردار کشی جاری رکھی تو ہمیں اس سے زیادہ سنگین طریقے سے سوال اٹھانا آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خود فرشتے اور مخالفین کو شیطان بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اگر ہمیں عزت نہیں ملے گی تو پھر آپ کو اسی زبان میں جواب ملے گا۔

مراد سعید کی تقریر کے دوران شور شرابہ

قومی اسمبلی میں اجلاس کے دوران وفاقی وزیر مراد سعید کی جانب سے تقریر کے دوران تنقید پر اپوزیشن اراکین نے شدید شور شرابہ کیا جس کے باعث اجلاس بار بار روک دیا گیا اور وقفہ لیا گیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران جب وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے تقریر شروع کی تو اپوزیشن اراکین نے نعرے لگائے اور شور شرابا کیا۔

مراد سعید اپنی تقریر مکمل نہیں کر پائے-فوٹو: ڈان نیوز
مراد سعید اپنی تقریر مکمل نہیں کر پائے-فوٹو: ڈان نیوز

اپوزیشن کے شور کے باعث مراد سعید اپنی تقریر جاری نہیں رکھ سکے جبکہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی کوششوں کے باوجود اپوزیشن اراکین خاموش نہیں رہے۔

مراد سعید نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ پی آئی اے اور اسٹیل مل کے حوالے سے بات کی گئی، اگر یہ ادارے دونوں اتنے اچھے تھے تو ان کے دور میں ان کے وزیر خزانہ یہ بیان نہ دیتے کہ پی آئی اے خریدنے والے کو اسٹیل مل مفت دیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان پوسٹ کی بات کی جبکہ پاکستان پوسٹ میں 62 ارب کا خسارہ یہ چھوڑ کر گئے اور جو نکتہ اٹھایا گیا ہے اس پر میں قرار داد بھی پیش کروں گا جبکہ اس دوران اپوزیشن مسلسل نعرے بازی کرتی رہی۔

مزید پڑھیں: حکومت کا سینیٹ انتخابات کیلئے آئین میں ترمیم کا فیصلہ

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہاں پروڈکشن آرڈر کا رونا رویا گیا اور کہتے ہیں کہ خواجہ آصف جیل میں ہے تو کیا یہ ایوان خواجہ آصف کی رہائی کے لیے ہے، دوسرے نے قبضہ مافیا کی بات کی، 36 افراد کی فہرست ہے، ملک پر اور ملک کے اثاثوں پر قبضہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لیڈرز کا حکم آتا ہے تو یہ شور شروع کر دیتے ہیں، میں جس کو سنانا چاہتا ہوں وہ شور کر رہے ہیں لیکن میں عوام کو سناؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ پر بڑا شور سنا تھا اور اس میں بھی ثابت ہوا کہ ان کے لیڈر نے جس طرح دیگر چیزوں میں ملک لوٹا تھا مزید ان کے کیسز سامنے آگئے، پارٹی کی اپنی رسیدیں اس لیے جمع نہیں کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے منی لانڈرننگ، چوری، کرپشن اور کک بیکس کے لیے پارٹی کے اکاؤنٹ استعمال کیا۔

مراد سعید نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سینیٹ میں جس طرح پیسے کا استعمال کیا جاتا ہے اور اراکین صوبائی اسمبلی کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدتے ہیں، یہ سلسلہ بند ہو، یہ غلط کام ہے، یہاں اچھے اراکین اسمبلی میرٹ پر ووٹ دینا چاہتے ہیں، ان بھی توہین کرتے ہیں کیونکہ ہر سینیٹ الیکشن کے بعد کہا جاتا ہے کہ اراکین صوبائی اسمبلی اور سینیٹر بک گئے، اس سلسلے کو بند کر دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسی کے لیے قانون سازی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں پر اوپن بیلٹ کریں، سب کے سامنے ووٹ دیا جائے اور چھانگا مانگا کی سیاست کو دفن کیا جائے، یہ اس لیے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیڈرز کرپشن کے پسے ان انتخابات میں استعمال کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ جو ابھی بات کر رہے ہیں وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ استعفیٰ منہ پر ماریں گے، انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اور آج یہاں بیٹھے ہوئے، انہوں نے کہا تھا کہ 31 جنوری کے بعد حکومت چلی جائے گی لیکن آج یہاں آکر اسمبلی میں بیٹھ گئے، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ استعفے دینے کی ان کی ہمت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست میں لوٹ مار کے لیے کرتے ہیں اور اسمبلی میں لوٹ مار کے تحفظ اور اس کو بچانے کے لیے آتے ہیں، اگر اتنی بہادری ہے تو باہر سے واپس آکر مقدمات کا سامنا کرو، باہر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے اور دشمن کے بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم دیکھ لے یہ منظر! انہوں نے 20،20 منٹ کی تقریر جھاڑ کر یہاں 'جس کو اپنے غلام سمجھتے ہیں، ان کو کھڑا کیا کہ شور مچانا شروع کردے تاکہ ان کے سوالات کا جواب نہ پہنچے، اس ایوان کو صرف پروڈکشن آرڈر، قبضہ مافیا کے تحفظ، پاناما، براڈ شیٹ اور اس میں آئی چوری کی رقم کو بچانے، جو آئینی ترمیم پاکستان کے حق میں آرہی ہے اس کو بچانے کے لیے استعمال کریں لیکن یہ ایوان اس کے لیے نہیں ہے بلکہ عوام کے ہر مسئلے کے حل کے لیے استعمال ہونا چاہیے'۔

مراد سعید نے کہا کہ ایوان ان کی مرضی کے مطابق اس طرح نہیں چل سکتا، یہاں مک مکا نہیں چلے گا، یہ اپنی تقریر کر کے مک مکا کریں گے، اسپیکر کے پاس جائیں گے یا شاہ صاحب کے پاس جائیں گے اور آپس میں بیٹھ جائیں گے تو ایسے نہیں چلے گا، میں یہاں مک مکا کرنے نہیں آیا، یہ تین دن تک شور مچائیں لیکن میں اپنی بات پوری کروں گا۔

ڈپٹی اسپیکر نے شور شرابے کے باعث اجلاس میں وقفہ لیا جبکہ اپوزیشن مسلسل جھوٹا جھوٹا کے نعرے لگاتے رہے۔

وقفہ سوالات

قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا جہاں وقفہ سوالات میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد میں 2020 میں جرائم کی شرح سے متعلق اپنا تحریری جواب جمع کرادیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ وفاقی پولیس کے اقدامات کی وجہ سے جرائم کی شرح میں کمی آئی۔

تحریری جواب میں کہا گیا کہ اغوا برائے تاوان کے کیسز میں 50 فیصد کمی ہوئی، ڈکیتی کے کیسز میں 18 اشاریہ 42 فیصد، چوری کے کیسز میں 67 اشاریہ 74 فیصد، راہزنی کے کیسز میں 34 اشاریہ 27 فیصد اور عمومی چوری کے کیسز میں 26 اشاریہ 89 فیصد کمی آئی اور اسی طرح گاڑیوں کی چوری میں 3 اشاریہ 64 فیصد، شدید حادثات کے کیسز میں 16 اشاریہ 92 فیصد کمی آئی۔

انہوں نے کہا کہ 2019 کے مقابلے میں 2020 میں آرمز آرڈیننس کے تحت ایک ہزار 53 کیسز رجسٹرڈ کیے گئے اور امتناع آرڈیننس کے تحت ایک ہزار 215 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں