سیاسی جماعت کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 04 فروری 2021
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان نیوز

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریماکس دیے ہیں کہ سیاسی جماعت کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے اور سیاسی جماعتوں میں بھی ڈکٹیٹر بیٹھے ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پارٹی میں ڈسپلین نہ ہو تو ایوان میں اکثریت کیسے رہے گی؟

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد اُمیدوار جس کو چاہے ووٹ دے۔

اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ آزاد اُمیدوار کو تجویز اور تائیند کنندہ کہاں سے ملیں گے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت میں آنے والی جماعت انتخابی وعدے پورے کرنے کی باتیں کرتی ہے اور سینیٹ میں اکثریت پوری نہ ہو تو وعدے کیسے پورے ہوں گے؟

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: حکومت سندھ کی اوپن بیلٹ کی مخالفت

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے جبکہ سیاسی جماعتوں میں بھی ڈکٹیٹر بیٹھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بھی تقریبا ساری جماعتیں ون مین پارٹی ہیں۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں 4 غیرمنتخب افراد فیصلہ کرتے رہے کہ وزیراعظم کون ہوگا؟

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لوگ اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دے کر تسلیم بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے ریماکس دیے کہ ضمیر کے خلاف ووٹ دینے والے پارٹی سربراہ کے احکامات کے پابند تھے اور پارٹی سربراہ سب کی رائے لے کر فیصلہ کرے تو ہی بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: اسپیکر قومی اسمبلی کی اوپن بیلٹ کی حمایت

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ فیصلے سے پہلے رکن اسمبلی کو پارٹی میں رائے دینی چاہیے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریماکس دیے کہ ملک میں سیاسی جماعتیں پارٹی سربراہان کے نام سے چلتی ہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دیے کہ آئینی طور پر سیاسی جماعتوں میں چیک ان ڈبیلنس ہونا چاہیے، جس کی اسمبلی میں اکثریت ہو، اسے سینیٹ میں اکثریت سے روکنا تباہ کن ہوگا۔

جج جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے ہیں کہ لوگ رکن پارلیمنٹ کو ووٹ اس کی پارٹی وابستگی کی وجہ سے دیتے ہیں اور پارٹی کے خلاف ووٹ دینا عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہوگا۔

انہوں نے ریماکس دیے کہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ اوپن بیلٹ کی بات کرنے والوں کی نیت صاف نہیں ہے۔

عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں