اسلام آباد: ٹریفک حادثے میں 4 افراد کی موت کا معاملہ، پولیس نے ڈرائیور کو رہا کردیا

اپ ڈیٹ 04 فروری 2021
حادثے کا شکار ہونے والی کشمالہ طارق کی Lexus کا عکس—فوٹو: شکیل قرار
حادثے کا شکار ہونے والی کشمالہ طارق کی Lexus کا عکس—فوٹو: شکیل قرار

اسلام آباد: پولیس تفتیش کاروں نے یکم فروری کو اسلام آباد کے سری نگر ہائی وے پر ہونے والے ٹریفک حادثے کے مرکزی ذمہ دار شخص کی نشاندہی کے لیے تفتیش کو تیز کردیا، اس حادثے میں 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے گرفتار کیے گئے ڈرائیور کو 3 فروری کو اس بنیاد پر رہا کردیا کہ انہیں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں نامزد نہیں کیا گیا تھا۔

کیپیٹل پولیس کے عہدیداروں نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ حادثے میں زخمی ہونے والے شخص مجیب الرحمٰن نے ایف آئی آر میں ڈرائیور کو نہیں بلکہ وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق کے بیٹے عزیز کو نامزد کیا تھا۔

تاہم کشمالہ طارق کے بیٹے نے ایڈیشنل سیشن جج محمد سہیل کی عدالت سے 50 ہزار کے مچلکوں کے عوض 16 فروری تک قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کی تھی۔

پولیس نے کشمالہ طارق کے ڈرائیور کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب انہوں نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی چلا رہے تھے۔

دوسری جانب کشمالہ طارق نے بھی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ ان کا بیٹا اس گاڑی میں موجود تھا، جو کار سے ٹکرائی تھی۔

کشمالہ طارق نے دعویٰ کیا کہ وہ اور ان کے شوہر کار سے ٹکرانے والی گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ٹریفک حادثہ: کشمالہ طارق نے کیا بات بتائی؟

ان کے مطابق ان کا بیٹا ان کے ساتھ ہی سفر کرنے والی دوسری گاڑی میں سوار تھا اور انہوں نے بیٹے کی بے گناہی کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کے کیمروں کی فوٹیج جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

تفتیش کاروں نے پہلے ہی سیف سٹی پروجیکٹ کے سی سی ٹی وی کیمرا کی ویڈیوز دیکھی ہیں مگر ان میں کشمالہ طارق کی گاڑی چلانے والے ڈرائیور کو واضح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔

پولیس تفتیش کاروں کے مطابق نصب کیے گئے زیادہ تر سی سی ٹی وی کیمروں میں نائٹ ورژن کی سہولت شامل نہیں ہے، جس وجہ سے فوٹیجز صاف نہیں۔

تفتیش کاروں نے بتایا کہ انہوں نے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کی جانب سے ٹول پلازہ پر نصب کیے گئے کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی ہیں مگر کشمالہ طارق کی گاڑی میں ای ٹیگ لگے ہونے اور گاڑی کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے ڈرائیور کو واضح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔

تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے جی الیون سیکٹر میں نصب ٹریفک کیمروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی مہران کار معمولی رفتار کے ساتھ جاری تھی اور وہاں 80 کلو میٹر فی گھنٹے کے حساب سے گاڑی چلانے کی اجازت ہے تاہم کیمروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمالہ طارق کی گاڑی کی رفتار معمول سے زیادہ تھی۔

ان کے مطابق انہوں نے اسلام آباد پولیس سے بھی کشمالہ طارق کی گاڑی کی اسپیڈ کے حوالے سے رابطہ کیا تھا۔

پولیس تفتیش کاروں نے بتایا کہ وہ حادثے کا مقدمہ درج کروانے والے افراد، حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی میں سوار افراد، گواہوں اور مقدمے میں نامزد شخص سمیت دیگر افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کریں گے اور حالات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

اسی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے وکیل احسن الدین شیخ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ کیس پولیس کے لیے ایک ٹیسٹ اور مثالی کیس ہے، کیوں کہ شکایت کرنے والوں نے کسی اور شخص کو نامزد کیا ہے جب کہ ایک اور شخص گاڑی چلانے کا اعتراف کر رہا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ مذکورہ کیس کی تفتیش مستقبل کے لیے ٹرینڈ سیٹر بنے گی، اگر پولیس نے صرف ڈرائیور کے اعتراف سے کام لیا تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔


یہ رپورٹ 4 فروری کو ڈان میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں