اسلام آباد: 'غیر قانونی چیمبرز' مسمار کرنے پر وکلا کا احتجاج، ہائی کورٹ پر دھاوا

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
بڑی تعداد میں مشتعل وکلا اسلام آباد ہائی کورٹ میں نعرے بازی کرتے ہوئے داخل ہوئے —تصویر: اسکرین شاٹ
بڑی تعداد میں مشتعل وکلا اسلام آباد ہائی کورٹ میں نعرے بازی کرتے ہوئے داخل ہوئے —تصویر: اسکرین شاٹ

اسلام آباد کچہری میں قائم 'غیر قانونی چیمبرز' گرانے پر مشتعل وکلا نے احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا بول دیا اور توڑ پھوڑ کی اور اپنے مطالبات پیش کر دیے۔

وکلا نے اسلام آباد کی ضلع کچہری میں تمام عدالتیں بند کرادیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی تمام عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی روک دی گئی۔

کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے رات گئے ایف 8 میں انسداد تجاوزات مہم کے تحت ضلع کچہری کے پارکنگ ایریا اور فٹ ہاتھ پر بنے مبینہ غیر قانونی چیمبرز مسمار کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: وکلا کا امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 3 مریض جاں بحق

جس پر وکلا نے آج صبح احتجاج کرتے ہوئے پہلے سیشن کورٹ میں توڑ پھوڑ کی اور اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا بولا۔

بڑی تعداد میں مشتعل وکلا اسلام آباد ہائی کورٹ میں نعرے بازی کرتے ہوئے داخل ہوئے اور چیف جسٹس بلاک میں موجود کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے۔

اس موقع پر وکلا کی جانب سے چیف جسٹس کے چیمبر کے باہر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔

جس وقت وکلا چیف جسٹس بلاک میں داخل ہوئے وہاں اسپیشل سیکیورٹی پولیس موجود نہیں تھی تاہم احتجاج کے کافی دیر بعد پولیس، انسداد دہشت گردی فورس کی بھاری نفری کے علاوہ رینجرز بھی عدالت پہنچ گئی۔

مزید پڑھیں: ملتان: وکلا برادری کا نئے جوڈیشل کمپلیکس پر دھاوا

احتجاج اور اشتعال انگیزی کے باعث چیف جسٹس اطہر من اللہ اپنے چیمبر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے تاہم چیف جسٹس بلاک سے تمام خواتین ملازمین کو باہر نکال دیا گیا۔

اس کے علاوہ وکلا کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی اور ویڈیو بنانے پر ان سے الجھ پڑے اور موبائل فون چھین لیے۔

احتجاج کے باعث اسلام آباد ہائی کورٹ میں تمام سائلین کا داخلہ بھی بند ہوگیا اور عدالت کے سروس روڈ کو بھی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔

وکلا نے اسلام آباد کی ضلع کچہری میں تمام عدالتیں بند کرادیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی تمام عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی روک دی گئی۔

جس وقت وکلا احتجاج کرتے ہوئے چیف جسٹس بلاک پہنچے وہاں اسپیشل سیکیورٹی موجود نہیں تھی—تصویر: اسکرین شاٹ
جس وقت وکلا احتجاج کرتے ہوئے چیف جسٹس بلاک پہنچے وہاں اسپیشل سیکیورٹی موجود نہیں تھی—تصویر: اسکرین شاٹ

وکلا سے مذاکرات کے لیے چیف کمشنر اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، حمزہ شفقات، سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کے علاوہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد قاضی جمیل الرحمٰن اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔

وکلا سے مذاکرات

جسٹس محسن اختر کیانی احتجاج کرنے والے وکلا سے گفتگو کے لیے باہر لان میں آئے اور وکلا کو بیٹھ کر بات چیت کرنے کی پیشکش کی، بعدازاں جسٹس محسن اختر کیانی وکلا رہنماؤں کو لے کر بار روم چلے گئے۔

مذاکرات کے دوران احتجاج کرنے والے وکلا نے دعویٰ کیا کہ ہمارے وکلا کو گرفتار کیا گیا ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ گرفتار کیے گئے وکلا کے نام لکھ کر دیں، ایس پی کو ابھی آرڈر کرتا ہوں، آپ لوگ جب تک اپنا مؤقف ہمارے سامنے نہیں رکھیں گے ہم مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ تُک نہیں بنتی تھی آپ لوگوں نے اندر آکر تھوڑ پھوڑ شروع کر دی، جس پر وکلا نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ جو لوگ اغوا ہوئے انہیں بازیاب کروایا جائے، ہمارے گرفتار وکلا کو تھانہ سیکریٹریٹ میں بند کیا گیا ہے۔

بعدازاں جسٹس محسن اختر کیانی نے ایس ایس پی سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے تمام وکلا اور پرائیویٹ گرفتار لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیے دیا۔

وکلا کی بڑی تعداد احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچی—تصویر: اسکرین گریب
وکلا کی بڑی تعداد احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچی—تصویر: اسکرین گریب

اس موقع پر صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار چوہدری حسیب نے وکلا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کا جو آج نقصان ہوا ہے یہ میرا نقصان ہے، آپ لوگ اپنے مطالبات لکھ کر دیں میں ان کو حل کرواؤں گا لیکن اگر آپ اس طرح ہی شور کریں گے تو گلہ نہ کرنا کہ ہمارا صدر ہمارے ساتھ نہیں ہے۔

اس پر احتجاجی وکلا نے نعرے لگائے اور کہا کہ یہ سب ڈی سی حمزہ شفقات کا کام ہے، اسے یہاں بلایا جائے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے قائد اعظم ہال میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کے چار سے پانچ چیمبرز کا مسئلہ تھا جو بیٹھ کر حل ہو سکتا تھا، پہلے بھی کہا تھا کہ چیئرمین سی ڈی اے کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جو چیمبرز کچہری کے اندر ہیں ان کو گرانا صرف بار کے صدر اور سیکریٹری کا کام ہے، جو چیمبرز عدالتوں کے پاس بنے ہیں میں ان کے حوالے سے نہیں کہہ رہا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے وکلا سے سوال کیا کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر کو کیوں توڑا گیا، آپ نے ڈپٹی کمشنر کا دفتر یا تھانہ تو نہیں توڑا، آپ نے مجھے دوہری مشکل میں ڈال دیا، پہلے وکلا کا نقصان ہوا پھر آپ نے چیف جسٹس کا چیمبر توڑ کر اپنا مزید نقصان کر لیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ وکلا نے اپنے گھر کے سربراہ کو ناراض کر دیا ہے، اب مجھے ان کو بھی راضی کرنا ہو گا، آپ نے چیف جسٹس کو بتانا تھا لیکن اگر ایسے توڑ پھوڑ کر کے بتائیں گے تو مسئلہ کیسے حل ہو گا، چیف جسٹس آپ کی طاقت ہیں آپ نے ان کے کمرے میں جا کر جو کیا اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کو بلا کر پوچھوں گا کہ جو چیمبر غلط طور پر گرائے گئے وہ کس کے حکم پر گرائے گئے، آپ آ کر ہمیں بتاتے تو سہی کہ آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے، آپ نے اپنے ہی چیف جسٹس کا چیمبر توڑ دیا اور انہیں گالیاں دیں، یہ باتیں اچھی نہیں ہیں اور ان کے نتائج آئیں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالتوں کے سامنے نہیں بنانے چاہئیں، میں انتظامیہ کے اس عمل کا دفاع نہیں کر رہا لیکن عدالتوں کے سامنے غیرقانونی چیمبرز نہیں بنانے چاہیے تھے، یہ عمل وکلا کی ہی نہیں میری بھی توہین ہے۔

ہڑتال کا اعلان

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ضلعی انتظامیہ اور سی ڈی کی جانب سے چیمبرز مسمار کرنے پر ہڑتال کا اعلان کردیا۔

ایسوسی ایشن کے سیکریٹری سہیل اکبر چودھری کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وکلا کے نقصانات کا فوری طور پر ازالہ کیا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی بھی بینچ میں کوئی بھی وکیل پیش نہیں ہوگا، پیش ہونے والے وکیل کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

وکلا کے مطالبات

وکلا نے حکام سے مذاکرات کے لیے اپنے 6 مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے گرفتار وکلا کو فی الفور رہا کیا جائے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گرائے گئے چیمبرز کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ گرائے گئے چیمبرز کی تعمیر کے ساتھ فی چیمبر پانچ لاکھ ہرجانہ بھی ادا کریں، ڈی سی اسلام آباد، متعلقہ ایس پی اور سیشن جج کو اسلام آباد سے ٹرانسفر کیا جائے، ڈسٹرکٹ کورٹس کہ منتقلی تک ایف 8 میں فٹ بال گراؤنڈ کی باقی اراضی پر بھی ینگ لائرز کے لیے چیمبرز بنائے جائیں۔

وکلا نے اپنے مطالبات میں کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹس جہاں پر منتقل ہورہے ہیں وہاں وکلا چیمبرز کے لیے 10 ایکڑ اراضی زمین دی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر چودھری حسیب نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے وکلا کو بلایا ہے، چیف جسٹس سے ملاقات کے لیے انتظامیہ اور ہم بھی جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تمام گرفتار وکلا کو بھی رہا کر دیا گیا ہے، ہم چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس اپنا مقدمہ لے کر جا رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔

اس موقع پر وکلا نے تجویز دی کہ وکلا ملاقات کے لیے نہ جائیں بلکہ چیف جسٹس پاکستان کو ضلع کچہری میں بلوا کر وہاں مسئلہ بتایا جائے، جس پر ڈسٹرکٹ بار اسلام آباد کے صدر کا کہنا تھا کہ اگر آپ لوگ کہتے ہیں تو ہم وہاں نہیں جائیں گے۔

وکیل رہنما نے کہا کہ ہمارے خلاف بے شک دہشت گردی کی دفعات کے تحت پرچے درج کر لیں، اگر ہمارے مطالبات نہ مانے تو سپریم کورٹ آف پاکستان بھی بند کردیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک چیمبرز تعمیر نہیں ہوں گے تب تک ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹس نہیں کھلنے دیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالتیں تاحاکم ثانی بند

عدالتی عملے نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالتیں تا حکم ثانی بند کر دی گئی ہیں اور ڈسٹرکٹ کورٹس کی عدالتیں بھی تاحکم ثانی بند رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے احکامات جاری کیے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سپریم کورٹ روانہ ہو گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں