سپریم کورٹ: سینیٹ انتخابات سے متعلق آرڈیننس پر حکومت کو نوٹس جاری

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا — فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا — فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے آرڈیننس کا نوٹس لیا اور کہا کہ حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی اور الیکشن ایکٹ سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) پاکستان کی درخواست پر نوٹس لیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں'

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت میں مؤقف اپنایا کیا کہ حکومت نے اوپن بیلٹ کے لیے آرڈیننس جاری کردیا ہے جبکہ عدالت اوپن بیلٹ کے بارے میں صدارتی ریفرنس سن رہی ہے اور اسی دوران آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی کارروائی کا ذرا بھی احترام نہیں کیا گیا، آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی، حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے اپنا فیصلہ کرلیا، اسی لیے ہم نے ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست عدالت میں جمع کرا دی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست کو بھی سن لیتے ہیں اور اس پر نوٹس جاری کردیتے ہیں، لگتا ہے کہ آرڈیننس مفروضے کے اصول پر مبنی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے، حکومت نے آرڈیننس قیاس آرائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا، معلوم نہیں کہ آرڈیننس کیسے جاری ہوا لیکن آرڈیننس تو جاری ہو چکا ہے، حکومت کو کوآرڈیننس جاری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر عدالت نے رائے دی کہ سینیٹ الیکشن آرٹیکل 226 میں نہیں آتا تو یہ آرڈیننس برقرار رہے گا، اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اور عدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیر مؤثر ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری

دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما رضا ربانی نے آزادانہ حیثیت سے عدالت میں مؤقف پیش کیا اور آرڈیننس کے اجرا پر اعتراض کیا۔

رضا ربانی نے عدالت میں کہا کہ آرڈینس جاری کر کے عجیب و غریب حالات پیدا کر دیے گیے ہیں، آرڈیننس میں لکھا ہے یہ فوری نافذ العمل ہوگا اور اگر عدالت کی رائے حکومت سے مختلف ہوتی ہے تو آرڈیننس کا کیا ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرڈیننس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے، ہم نے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں، سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ یہاں قانون پڑھے بغیر ہی پریس کانفرنس کردی جاتی ہے، اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر جمعرات کو کیا ہوا وہاں تو مختلف مؤقف اختیار کیا گیا۔

رضا ربانی نے کہا کہ میں سیاسی معاملے کی طرف آتا ہوں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں صدارتی ریفرنس کی سماعت میں فریق نہیں ہیں، رضا ربانی بولے میں یہاں تصحیح کرنا چاہتا ہوں، سندھ حکومت کے ذریعے پیپلز پارٹی یہاں فریق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نہ تو سیاسی جماعت کی طرف سے بات کرسکتی ہے اور نہ سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے بات کر سکتی ہے، جس پر رضا ربانی نے کہا کہ حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بڑی عجیب بات ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلزپارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں جبکہ میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کررہا ہوں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: حکومت سندھ کی اوپن بیلٹ کی مخالفت

انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن شیڈول 11 فروری کے بعد جاری ہونے سے مسائل ہوسکتے تھے، آرڈیننس مفروضے پر نہیں بلکہ ایک مشروط قانون سازی ہے، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 126 میں ترمیم کی گئی ہے اور آرڈیننس سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں رو بہ عمل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پرووائزو میں ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے قرار دیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ووٹنگ خفیہ ہوگی لیکن بیلٹ کی بوقت ضرورت شناخت ہوسکے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فرض کریں سپریم کورٹ رائے نہیں دیتی تو 11 مارچ کو سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس کے حوالے سے دی گئی، درخواست کو بھی کیس کے ساتھ سنیں گے اور عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس میں یہ بھی لکھا ہے کہ عمل درآمد عدالتی رائے سے مشروط ہوگا، آرڈیننس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، آرڈیننس کا عدالتی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جمعرات کو آخری سماعت ہوئی، اس روز ترمیم قومی اسمبلی سے واپس لی گئی تھی اور قومی اسمبلی میں اُس روز کافی کچھ ہوا تھا۔

اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دوسرے ملکوں کی پارلیمنٹ میں تو کرسیاں بھی چل جاتی ہیں، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شاید اسی لیے ہماری پارلیمنٹ میں کرسیاں فکس کی گئی ہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جو آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں