سپریم کورٹ: پھانسی کے منتظر ذہنی بیمار مجرموں کی سزا، عمر قید میں تبدیل

اپ ڈیٹ 11 فروری 2021
فیصلے میں کہا گیا کہ چند غلط فہمیوں کی وجہ سے ذہنی امراض کے اثرات کو 
 نظر انداز کیا جاتا ہے —تصویر: فیس بک
فیصلے میں کہا گیا کہ چند غلط فہمیوں کی وجہ سے ذہنی امراض کے اثرات کو نظر انداز کیا جاتا ہے —تصویر: فیس بک

پھانسی کے منتظر ذہنی بیمار قیدیوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی مجرم قیدی ذہنی بیماری کے باعث اپنی سزا کی وجہ اور منطق سمجھنے سے قاصر پایا جائے تو وہ سزائے موت سے استثنیٰ کا اہل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ کے 51 صفحات پر مشتمل فیصلے میں یہ بھی واضح کردیا گیا کہ ہر قسم کی ذہنی بیماری خود کار طریقے سے سزائے موت سے استثنیٰ کی اہل نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اس استثنیٰ کا اطلاق صرف اس صورت میں ہوگا کہ جب ماہرین ذہنی صحت پر مشتمل ایک میڈیکل بورڈ مجرم قیدی کے مکمل معائنے اور جائزے کے بعد اس بات کا سرٹیفکیٹ دیں کہ اس کا ذہن اتنا بھی کام نہیں کرتا کہ وہ اپنے آپ کو دی جانے والی سزائے موت کی وجہ اور منطق سمجھ سکے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ میڈیکل سائنسز اور انسانی حقوق کے ارتقا نے معاشرے کو ناگوار لیبلز جیسا کہ 'خبطی، پاگل اور باولا' جیسے الفاظ کے حوالے سے حساس بنا دیا ہے اور دنیا بھر میں حالیہ قانون سازیوں میں ان اصلاحات کا استعمال نہیں کیا جاتا۔

چنانچہ عدالت نے تعزیرات پاکستان، کرمنل کوڈ پروسیجر اور قیدیوں کے قوانین میں خبطی اور دماغی مرض جیسے الفاط کو ذہنی بیماری یا ذہنی خرابی جیسے الفاظ سے تبدیل کرنے کی ہدایت کی، جہاں بھی لفظ پاگل استعمال ہوا ہے اسے بھی مناسب الفاظ سے تبدیل کیا جائے۔

یہ احکامات سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے سزائے موت کے منتظر ذہنی بیمار قیدیوں کو پھانسی دینے کے خلاف اپیلوں پر سنائے گئے فیصلے میں دیے جس میں 2 قیدیوں، امداد علی اور کنیزاں بی بی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے دونوں مجرمان کو پنجاب کے ذہنی امراض کے ہسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کی گئی۔

اس کے علاوہ عدالت نے تیسرے مجرم غلام عباس کی سزائے موت کے خلاف اپیل صدر مملکت کو دوبارہ ارسال کرنے کا حکم دیا اور توقع ظاہر کی کہ صدر مملکت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں رحم کی اپیل پر فیصلہ کریں گے۔

جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی شخص کی جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت بھی انتہائی اہم ہے، بد قسمتی سے اسے وہ توجہ یا اہمیت نہیں دی جاتی جو ملنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:امداد علی کیس: ذہنی بیمار شخص کو پھانسی دینا کیوں غلط؟

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چند غلط فہمیوں کی وجہ سے ذہنی امراض کے اثرات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس سے جنم لینے والی کمزوری اور معذوری کو مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔

سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو فیصلے کی روشنی میں قوانین میں اور جیل رولز میں بھی ذہنی مریض قیدیوں سے متعلق ترامیم کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وفاق اور صوبے ذہنی مریض قیدیوں کے لیے بہترین فرانزک ہیلتھ سہولیات شروع کریں اور سزائے موت کے قیدیوں کی ذہنی کیفیت جانچنے کے لیے ماہر نفسیات پر مشتمل بورڈ بنایا جائے جو ذہنی مریض قیدیوں کو سزائے موت نہ دینے کی وجوہات کا تعین کرے گا۔

علاوہ ازیں عدالت نے وفاق اور صوبوں کو ذہنی امراض میں مبتلا زیر ٹرائل ملزمان کی جانچ کے لیے بھی میڈیکل بورڈز بنانے اور جیل حکام، سماجی کارکنان، پولیس اور ماہر نفسیات کے تربیتی پروگرام شروع کرنے بھی حکم دیا۔

مزید پڑھیں: 16 سال سے سزائے موت کے منتظر ذہنی مریض قیدی خضر حیات کا انتقال

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ صوبائی اور وفاقی جوڈیشل اکیڈمیز میں ججز، وکلا، پروسیکیوٹرز کے لیے تربیتی پروگرامز شروع کیے جائیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ سے اس کے لارجر بینچ کے ذریعے ذہنی امراض میں مبتلا مجرمان اور ملزمان کے مقدمات میں سزا پر عملدرآمد، مقدمات کا سامنا کرنے کی اہلیت اور جرم سے متعلق سوالات کا تعین کرنے کے لیے رجوع کیا گیا تھا۔

یہ تعین اس حوالے سے ہونے والے حالیہ قانونی، طبی اور اصولوں میں ہوئی پیش رفت کے تناظر میں بھی ضروری تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میانخیل اور جسٹس منظور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے 5 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔

بینچ نے پھانسی کے منتظر ذہنی بیمار قیدیوں سے متعلق 3 اپیلوں پر 7 جنوری 2021 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

مذکورہ اپیلیں کنیزاں بی بی، امداد علی اور غلام عباس کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جو ذہنی امراض کی واضح علامتوں کے ساتھ بالترتیب 30، 18 اور 14 سالوں سے سزائے موت کے منتظر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ذہنی بیماریوں کا شکار سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

امداد علی کو سال 2002، کنیزاں بی بی کو 1991 اور غلام عباس کو سال 2006 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

کمالیہ کی کنیزاں بی بی کو 6 افراد کے قتل کے الزام میں جبکہ وہاڑی کے امداد علی پر بورے والا میں حافظ عبداللہ کو قتل کرنے پر سزا ہوئی تھی۔

گزشتہ سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت کو بتایا تھا کہ ذہنی بیمار فرد کو سزائے موت اور پھانسی نہیں دینی چاہیے۔

اس کیس میں پروفیسر ڈاکٹر موادات حسین رانا اور ایڈووکیٹ حیدر رسول مرزا نے اپنی قانونی اور طبی مہارت کے ساتھ عدالت کی معاونت کی تھی۔

ان دونوں کی رائے یہی تھی کہ ذہنی بیمار افراد کو پھانسی کے بجائے کسی نفسیاتی علاج کے ہسپتال منتقل کیا جائے جہاں ان کا نفسیاتی بیماریوں کی ادویات سے علاج کیا جاسکے۔

اس کے علاوہ انہوں نے صوبائی سطح پر اس قسم کے قیدیوں کی بحالی کے لیے فرانزک میڈیکل سہولت گاہیں بنانے کی بھی سفارش کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں