سینیٹ انتخابات ریفرنس: 'جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا'

اپ ڈیٹ 10 فروری 2021
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ فیس بک
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ فیس بک

سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سینٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی جہاں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیے۔

اٹارنی جنرل نے سینیٹ میں ووٹنگ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ میں ووٹر کو مکمل آزادی نہیں ہوتی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: سینیٹ انتخابات سے متعلق آرڈیننس پر حکومت کو نوٹس جاری

جسٹس عمر عطابندیال نے اٹارنی جنرل کے دلائل پر کہا کہ آپ بھارتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، بھارتی آئین میں خفیہ ووٹنگ کا آرٹیکل 226 موجود نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارتی آئین میں ہر الیکشن کے لیے خفیہ ہونے یا نہ ہونے کا الگ سے ذکر ہے جبکہ آرٹیکل 226 میں تمام انتحابات خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے مطابق آئین کے تحت ہونے والے الیکشن خفیہ ہوں گے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئین بنانے والوں کو سینیٹ انتخابات کا معلوم نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اوپن ووٹنگ کی فروخت آج ہے پہلے نہیں تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 1973 میں تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ لوگ نوٹوں کے بیگ بھر کر لائیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ صورت حال اتنی بھی سادہ نہیں ہے جتنی آپ کہہ رہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھٹو پر ایئر کنڈیشنز کی ڈیوٹی کم دینے کا کیس بنانے کی کوشش ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کوشش کے باوجود بھٹو کے خلاف کرپشن ڈھونڈ نہیں سکے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لوگ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا اس کے منشور کو ووٹ دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں'

اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیادہ تر لوگ لیڈر کی طلسماتی شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں، قائد اعظم کی شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں نے انہیں ووٹ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر پارٹی اور منشور دونوں کو ووٹ ملنا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ طلسماتی چیز کیا ہے، کیا بہترین شخصیت اور خوش لباسی پر ووٹ دیا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ووٹ پارٹی کو دیا جاتا ہے نہ کہ انفرادی شخصیت کو، لوگ انتخابات میں پوچھتے ہیں کہ کتنے وعدے پورے کیے۔ پارٹی منشور کو شائع کرنا قانونی طور پر ضروری ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں تو سیاسی جماعتوں کا ذکر ہے، اندرا گاندھی نے آئین توڑا تو لوگوں نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے، آئین میں ذکر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں آئیں کے تحت بنیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار رولز میں ہے، کیا اسپیکر کا انتخاب آئین کے بجائے رولز کے تحت ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب الیکشن کمیشن نہیں کراتا، کہا جاتا ہے کہ چیئر مین سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلٹ سے کیوں نہیں کروادیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی رائے آنے پر چیئرمیں سینیٹ کا انتخاب بھی اوپن بیلٹ سے کرا دیں گے اور چیئرمین سینیٹ کا انتخاب آئین کے تحت ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی لیکن عوام کی نظر میں گر جانا سیاست دان کی بڑی ناکامی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اکثر بڑے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیتی ہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ نوٹوں کے بھرے بیگ بانٹے جائیں۔

سینیٹ انتخابات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمومی بات اپنی جگہ تاہم عدالت نے قانون کو مد نظر رکھنا ہے، دوہری شہریت اور جعلی ڈگری رکھنے پر عدالت نے کئی اراکین اسمبلی کو نااہل کیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والا بد دیانت ہوتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بد دیانت نہیں ہوتا تاہم پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے تو کھلے عام دے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کل تک ملتوی کر دی اور کل اٹارنی جنرل حتمی دلائل دیں گے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی گزشتہ سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے آرڈیننس کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

عدالت نے الیکشن ایکٹ سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) پاکستان کی درخواست پر نوٹس لیا تھا۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں