اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی اسد درانی کی درخواست پر سماعت سے معذرت

اپ ڈیٹ 12 فروری 2021
وزارت دفاع نے اسد درانی پر بھارتی خفیہ ایجنسی را سے رابطوں کو الزام عائد کیا تھا —فائل/فوٹو: الجزیرہ
وزارت دفاع نے اسد درانی پر بھارتی خفیہ ایجنسی را سے رابطوں کو الزام عائد کیا تھا —فائل/فوٹو: الجزیرہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی جانب سے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے دائر درخواست پر سماعت سے معذرت کرلی۔

جسٹس محسن اخر کیانی نے سماعت سے معذرت کرتے ہوئے نئے بینچ کی تشکیل کے لیے کیس واپس چیف جسٹس اطہر من اللہ کو بھجوا دیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسد درانی 2008 سے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے رابطوں میں رہے، وزارت دفاع

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیس کا سارا پس منظر جانتا ہوں اور فیصلہ بھی لکھنے کے مرحلے میں تھا لیکن یہ افسوس ناک ہے کہ کچھ ایسی وجوہات ہیں جو بتانا نہیں چاہتا اور یہ کیس چیف جسٹس اطہر من اللہ کو بھیج رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اس کیس پر سماعت کے لیے نئے بینچ کا فیصلہ کریں گے۔

خیال رہے کہ جنرل (ر) اسد درانی کا نام بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے سابق سربراہ کے ساتھ مشترکہ طور پر کتاب لکھنے پر ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔

وزارت دفاع نے عدالتی نوٹس پر تحریری جواب جمع کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا نام ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث ای سی ایل میں شامل کیا گیا۔

جواب میں کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی 32 سال پاکستان آرمی کا حصہ رہے اور اہم و حساس عہدوں پر تعینات رہے لیکن 2008 سے دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے رابطوں میں رہے۔

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اسد درانی کے خلاف انکوائری حتمی مرحلے میں ہے اور اس موقع پر ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر حکومت سے جواب طلب

وزارت دفاع نے کہا کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے سابق چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی، جس کا سیکیورٹی لحاظ سے جائزہ لیا گیا اور انکوائری بورڈ کے مطابق کتاب کا مواد پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے ای سی ایل سے اپنے نام کے اخراج کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

وفاقی حکومت نے 29 مئی کو پاک فوج کی درخواست پر اسد درانی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا تھا۔

خیال رہے کہ پاک فوج کی جانب سے یہ فیصلہ اسد درانی کے بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ کے ہمراہ مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب کے حوالے سے وضاحت کے لیے 28 مئی کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں طلبی کے بعد کیا گیا تھا۔

جنرل (ر) اسد درانی اگست 1990 سے مارچ 1992 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے، ان کے خلاف باقاعدہ انکوائری کا آغاز ہونے کے بعد مئی میں انہیں جی ایچ کیو بھی طلب کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے متعلق جی ایچ کیو کی رپورٹ طلب

انکوائری کی سربراہی حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کر رہے ہیں جس میں ان سے تحریر کردہ کتاب میں لکھے گئے مواد کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن میں جنرل (ر) اسد درانی کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کے موکل کو جی ایچ کیو میں ’چائے کے لیے‘ بلایا گیا تھا۔

انہوں نے عدالت میں کہا تھا کہ جنرل (ر) اسد درانی بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں لیکن ای سی ایل میں نام شامل ہونے کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں