ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کی کارروائی سے دوسری مرتبہ بری

اپ ڈیٹ 14 فروری 2021
سابق صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے—فائل فوٹو: اے پی
سابق صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے—فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دارالحکومت میں ہونے والےپُر تشدد احتجاج میں کردار ادا کرنے پر ان کے خلاف ہونے والی مواخذے کی کارروائی سے بری کردیا، یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک سال کے عرصے میں مواخذے کی دوسری کارروائی تھی۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں ٹرائل 5 روز تک چلا اور ان کے خلاف ووٹوں کی تعداد 43 کے مقابلے 57 ووٹس رہی جبکہ انہیں سزا دینے کے لیے 2 تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔

ووٹنگ کے عمل میں 7 ریپبلکن سینیٹرز نے ڈیموکریٹس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو سزا دینے کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ ’غیر جمہوری اور سیاسی ہتھیار ہے‘، وکلا

واضح رہے کہ سابق صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے اس لیے مواخذے کی کارروائی کو انہیں عہدےسے ہٹانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ڈیموکریٹس کو امید تھی کہ وہ دارلحکومت کے پُر تشدد گھیراؤ کا ذمہ دار ٹھہرانے پر انہیں سزا دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے وہ دوبارہ سرکاری عہدے پر نہیں آسکیں گے۔

سابق امریکی صدر نے اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس کے فوراً بعد ان کے حامیوں نے 6 جنوری کو امریکی دارالحکومت کے کیپٹل ہل پر چڑھائی کردی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اٹارنی نے مؤقف اپنایا کہ ریلی میں دیے گئے ان کے بیان کو آئین کے تحت آزادی اظہار رائے کا تحفظ حاصل ہے اور انہیں اس کارروائی میں مناسب طریقہ کار نہیں دیا گیا۔

سابق امریکی صدر کے خلاف ان کی اپنی جماعت کے جن سینیٹرز نے ووٹ دیے ان میں رچرڈ بُر، بِل کیسیڈی، سوسان کولِنز، بین ساسے، پیٹ ٹومی اور لیزا مرکوسکی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈیموکریٹس کے اصرار کے باوجود مائیک پینس کا صدر ٹرمپ کے مواخذے سے انکار

خیال رہے کہ اس سے قبل ریپبلکنز اراکین سینیٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو 5 فروری 2020 کو مواخذے سے بچایا تھا اور اس وقت ان کی جماعت کے صرف ایک سینیٹر مِٹ رومنی نے ان کی سزا اور عہدے سے ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

سینیٹ کے اکثریتی رہنما مِچ میک کونیل نے سزا کے خلاف ووٹ دیا لیکن ان فیصلہ آنے کے بعدسابق صدر کے خلاف سخت تنقیدی بیان بھی دیا۔

انہوں نے کہا کہ 'اس روز جو واقعہ ہوا اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عملی اور اخلاقی طور پر ذمہ دار ہونے میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، وہ افراد جنہوں نے عمارت پر دھاوا بولا وہ سمجھتے تھے وہ یہ سب اپنے صدر کی خواہش اور ہدایت پر کررہے ہیں'۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وہ تیسرے امریکی صدر ہیں جن کا امریکی ایوان نمائندگان نے مواخذہ کیا جبکہ وہ پہلے صدر ہیں جن کے خلاف دوسری مرتبہ مواخذے کی کارروائی ہوئی اور جنہوں نے عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد بھی اس کارروائی کا سامنا کیا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دوسرے مواخذے کی منظوری

امریکی ایوانِ نمائندگان نے 13 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے واحد آرٹیکل کی منظوری دی تھی جبکہ اس میں 10 ریپبلکن اراکین نے بھی ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا تھا۔

سابق امریکی صدر کے خلاف پہلا مواخذہ 2019 میں یوکرین کے صدر کے ساتھ روابط اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے تحت شروع ہوا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف پہلا مواخذہ یوکرین میں تعینات امریکی سفیر کی جانب سے ان پر لگائے گئے الزامات کے بعد ہوا تھا، جس میں امریکی سفیر نے ڈونلڈ ٹرمپ پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے جو بائیڈن کے خلاف کارروائی کے لیے یوکرین پر دباؤ ڈالا تھا۔

مذکورہ مواخذے میں خوش قسمتی سے سینیٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کلیئر قرار دیا تھا، اگر ان کے خلاف مواخذہ آجاتا تو انہیں عہدہ چھوڑنا پڑ سکتا تھا۔

کیپٹل ہل میں کیا ہوا تھا؟

خیال رہے کہ نومبر 2020 میں ہونے والے امریکی انتخابات میں شکست کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ووٹ چوری ہونے کے الزامات عائد کررہے تھے۔

بعد ازاں 6 جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج میں تبدیلی اور منتخب صدر جو بائیڈن کی جگہ ڈونلڈ ٹرمپ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا اور پرتشدد واقعات کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے اس حملے کے دوران کیپیٹل ہل (امریکی ایوان نمائندگان) کی عمارت میں موجود قانون دان اپنی جانیں بچاتے ہوئے ڈیسکوں کے نیچے چھپنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: کیپیٹل ہل واقعہ، جوبائیڈن نے ٹرمپ کو بغاوت کا مرتکب قرار دے دیا

اس دوران فائرنگ کے نتیجے میں کیپیٹل ہل کے اندر ایک خاتون ہلاک ہو گئیں جس کے بعد میئر نے تشدد میں کمی کے لیے شام کے وقت واشنگٹن میں کرفیو نافذ کردیا۔

امریکی دارالحکومت میں ناخوشگوار مناظر دیکھ کر دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان اور حکومت نے مذمت کی تھی جبکہ فیس بک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے سوشل میڈیا ایپس پر غیر معینہ مدت کے لیے بلاک کردیا تھا۔

دوسری جانب امریکی ایوانِ نمائندگان نے اس کارروائی کے لیے اکسانے پر سابق امریکی صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی تھی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں