سینیٹ انتخابات ریفرنس: سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 15 فروری 2021
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: چیف جسٹس گلزار احمد نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، عام تاثر ہے کہ سینیٹ الیکشن میں کرپشن ہوتی ہے۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا و دیگر اراکین کو منگل (کل) کو عدالت طلب کرلیا۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل، وکیل الیکشن کمیش و دیگر حکام پیش ہوئے۔

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سندھ بار کونسلز سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل گئی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلز کا مؤقف ہے کہ آئین کے خلاف کوئی کام نہ ہو۔

اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بار کونسلز نے اپنی قراردادیں ججز کو بھی بھجوائیں، مقدمہ سننے والے ججز کو قراردادیں بھجوانا پروفیشنل (پیشہ ورانہ) رویہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ واضح کرنا ہوگا کہ بار کونسلز کا کام کہاں ختم ہوتا ہے اور عدالت کا کہاں سے شروع ہوتا ہے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار کونسلز کو سب سے زیادہ خطرہ سینیٹ میں اوپن بیلٹ سے ہے، بار کونسلز کا مؤقف سن کر شدید مایوسی ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلز کا مؤقف آزادنہ ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی جماعتوں والا۔

ان کی بات پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار کونسلز ماضی میں آئین اور قانون کی بالادستی کا کردار ادا کرتی تھیں، میں بار کونسلز سے درخواست کروں گا کہ اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ ہو مگر شکایت پر جانچ ہونی چاہیے، کوئی قانون الیکشن کمیشن کے اختیارات ختم نہیں کرسکتا، ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ شفاف الیکشن یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، آئین شفافیت یقینی بنانے کا کہتا ہے تو الیکشن کمیشن ہر لحاظ سے بااختیار ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انتحابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہموریت کی بقاء شفاف انتحابات میں ہی ہے۔

عدالت میں سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن وفاقی اور بلدیاتی حکومتیں صوبائی حکومتوں کے ادارے ہیں، صوبائی اسمبلی قانون سازی سے وفاقی ادارے کو پابند بناتی ہیں، پارلیمان نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کی ترمیم نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض اوقات عدالتی تشریح کی ضرورت ہوتی ہے، عدالت تشریح کرتی ہے اور پارلیمنٹ اس کے مطابق ترمیم کرتی ہے، ماضی میں عدالتی احکامات کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیارات دیے گئے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اوپن بیلٹ میں بھی ووٹ خفیہ طور پر ہی ڈالا جائے گا۔

اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ انتخابات والے رولز کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق کیوں نہیں ہوتا، عام انتخابات میں بھی الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لیتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ خفیہ ووٹنگ کا اطلاق ووٹ ڈالنے تک ہوتا ہے، ساتھ ہی یہ پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ڈالے گئے ووٹ کو آ رٹیکل 226 کے تحت تحفظ ہوتا ہے۔

اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے طور پر بھی تحقیقات کر سکتا ہے، ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اب تو انتخابی کرپشن کی ویڈیو بھی سامنے آ رہی ہے،الیکشن کمیشن کو بتانا ہوگا کہ شفافیت کیسے یقینی بنائی جائے۔

اسی کے ساتھ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف شیڈول دینا کافی نہیں الیکشن کمیشن کو پولنگ اسکیم بنانا ہوگی، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں کرپشن کے خاتمے کا طریقہ کار موجود ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کرپٹ پریکٹس تو جاری ہے۔

ساتھ ہی جسٹس اعجازالاحسن نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ 40 سال تک کتنے سینیٹرز ووٹوں کی خرید و فروخت پر نااہل ہوئے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

وکیل نے کہا کہ ڈیٹا منگوا کر دیکھنا ہوگا کہ کوئی نااہل ہوا یا نہیں، تاہم وحیدہ شاہ کیس میں ای سی پی نے کارروائی کی، مزید یہ ٹھوس شواہد ملیں تو الیکشن کمیشن کارروائی سے بھاگے گا نہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام بھاگنا نہیں شفافیت یقینی بنانا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو کل عدالت طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، عام تاثر ہے کہ سینیٹ الیکشن میں کرپشن ہوتی ہے، الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل سے کرپشن روکنے کی اسکیم نہیں بنائی۔

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے سینیٹ انتخابات میں کرپشن روکنے کی پولنگ اسکیم بھی طلب کرلی، اب اس کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: 'جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا'

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں