کاوے موسوی نے اپنی توپوں کا رخ موجودہ حکومت کی جانب موڑ دیا

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2021
براڈ شیٹ کے مالک نے شریف خاندان پر الزامات کے بعد اپنی توپوں کا رخ حکومت کی جانب موڑ دیا ہے — فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
براڈ شیٹ کے مالک نے شریف خاندان پر الزامات کے بعد اپنی توپوں کا رخ حکومت کی جانب موڑ دیا ہے — فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

لندن: شریف خاندان پر تحقیقات چھوڑنے کے لیے رشوت کی پیش کش کرنے کے الزامات عائد کرنے کے چند دن بعد براڈشیٹ ایل ایل سی کے مالک کاوے موسوی نے اپنی توپوں کا رخ موجودہ حکومت کی جانب موڑ دیا اور وزیر اعظم عمران خان سے ثالثی کے حکمنامے کو شائع کرنے کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کاوے موسوی نے یوٹیوب چینل کے میزبان عرفان ہاشمی کے ساتھ ایک نئے انٹرویو میں کہا کہ میں حکومتِ پاکستان کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ سر انتھونی ایونز کے فیصلے کو کھولیں، یہ انتہائی پیچیدہ ہے۔

مزید پڑھیں: نیب پر واجب الادا رقم کے سلسلے میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن مشکلات کا شکار

ان کا کہنا تھا کہ اگر بدعنوانی کے خلاف جنگ میں عمران خان کی ساکھ کے دعوے کی کوئی اہمیت ہے تو وہ اس فیصلے کو شائع کریں تاکہ پاکستانی عوام وہ پڑھ سکیں، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو میں یہ سوچنا شروع کردوں گا کہ وہ کچھ اعتبار حاصل کر رہے ہیں۔

کاوے موسوی اس ہفتے کے شروع میں مشیر احتساب شہزاد اکبر کے تبصرے سے بھی ناراض دکھائی دیے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اثاثہ بازیافت کمپنی نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا۔

شہزاد اکبر نے عدالت کی جانب سے براڈ شیٹ ایل ایل سی کو ایوارڈ کی گئی بھاری رقم کی ادائیگی سے متعلق سوالات کے جواب میں اس نمائندے کو بتایا تھا کہ موسوی نے ایک ایسی کمپنی خریدی جس کا تصفیہ چل رہا تھا، اس کمپنی نے پاکستان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا ... اس کی وجہ سے پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔

کاوے موسوی نے پچھلے ہفتے شریف خاندان، آصف علی زرداری، جنرل مشرف، ایک نامعلوم جنرل اور پی ٹی آئی کی حکومت سے منسلک ایک نامعلوم فرد پر رشوت اور چند منتخب افراد کے احتساب کا الزام لگایا تھا اور اب انہوں نے بے حسی اور 'غیریقینی' احتساب کی مہم پر عمران خان اور ان کی کابینہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کے اثاثوں کی کھوج کرنے والی کمپنی نے انہی سے مدد طلب کر لی

کاوے موسوی نے کہا کہ شہزاد اکبر ایسی تصویر کشی کررہے ہیں گویا براڈشیٹ نے کارکردگی نہیں دکھائی، اگر شہزاد اکبر نے اپنی تحقیق نہیں کی ہے تو انہیں برخاست کردیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ براڈشیٹ نے اپنا کام کیا، عدالت نے اسے رقم سے نوازا کیونکہ اس نے یہ کام کیا تھا، ہم نے لاکھوں ڈالر کا دعویٰ کیا کیونکہ ہمیں اربوں روپے ملے تھے لیکن نیب نے اس کو سبوتاژ کیا۔

انہوں نے اپنے الزامات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ایک نامعلوم شخص، جس کے بارے میں کاوے موسوی کا ماننا ہے کہ 2018 میں شہزاد اکبر کے ساتھ لندن آنے والے سرکاری وفد کا حصہ تھا، سے جب انہوں نے ایک ارب ڈالر کی چوری شدہ رقم کے اکاؤنٹ کے بارے میں ذکر کیا تو اس نے اپنے حصے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے حکومت کے وکیلوں کو اپنا حصہ مانگنے والے اس شخص کے بارے میں آگاہ کیا لیکن یہ ایک 'بڑی غلطی' تھی کیونکہ اس بارے میں کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

مزید پڑھیں: براڈشیٹ کے مالک کے شریف خاندان پر الزامات کے بعد نیا تنازع کھڑا ہو گیا

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے برطانیہ میں پولیس کو اطلاع دینی چاہیے تھی۔

اس سے قبل کاوے موسوی نے الزام لگایا تھا کہ ایک شخص نے انجم ڈار کے طور پر اپنی شناخت کرائی اور نواز شریف سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کیا، اس نے 2012 میں شریف فیملی کے خلاف تفتیش روکنے کے لیے ڈھائی کروڑ ڈالر رشوت کی پیش کش کی، حسین نواز نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ اس نام کا ان کے خاندان میں کوئی رشتہ دار نہیں۔

کاوے موسوی نے بعد میں جواب دیا کہ 'اگر عمران خان اور شریف خاندان دھمکی دینے سے باز نہ آئے تو میں یہ فیصلہ شائع کردوں گا اور آپ دیکھیں گے کہ عدالت نے براڈشیٹ کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہا ہے'۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کاوے موسوی جس واحد شخص کے بارے میں مثبت باتیں کرتے ہیں وہ جنرل محمد امجد ہیں جو 2000 میں جنرل پرویز مشرف کے ذریعے مقرر کردہ نیب کے سربراہ تھے اور انہوں نے شریف خاندان کے خلاف براڈشیٹ ایل ایل سی کی خدمات حاصل کی تھیں۔

جنرل امجد اب تک براڈشیٹ کہانی پر میڈیا کے ہنگاموں سے دور رہے ہیں، 2017 میں وہ نواز شریف کے خلاف مقدمے میں ثبوت دینے کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت امریکی کمپنی کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر رضامند

پچھلے ہفتے میں کاوے موسوی کئی نیوز چینلز پر نمودار ہوئے اور متعدد افراد کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد کیے ہیں جن میں سے کچھ کی انہوں نے شناخت کی ہے۔

سنہ 2000 میں جنرل امجد کے دستخط کردہ اس براڈشیٹ معاہدے میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ کمپنی جو بھی اثاثے برآمد کرے گی اس کا 20 فیصد حصہ کمپنی کو ملے گا اور بقیہ نیب کے پاس جائے گا۔

اس معاہدے میں براڈشیٹ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ نیب کی جگہ اثاثے ضبط کرنے کے لیے ضروری قانونی کارروائی یا قانونی چارہ جوئی کی کارروائی شروع کر سکتی تھی۔

نیب اور براڈشیٹ نے ایک بینک اکاؤنٹ کھولنے پر بھی اتفاق کیا تھا جس کو نیب اور کمپنی کو مشترکہ طور پر کنٹرول کرنا تھا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ برآمد ہونے والی تمام اثاثوں کی رقم کو اکاؤنٹ میں جمع کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں