برطانیہ میں کورونا وائرس کی ایک اور نئی قسم کو دریافت کیا گیا ہے جس میں ہونے والی میوٹیشنز پریشان کن ثابت ہوسکتی ہیں۔

ایڈنبرگ یونیورسٹی کے محققین نے اس نئی قسم کو دریافت کیا، جس کو بی 1525 کا نام دیا گیا ہے اور اسے جینوم سیکونسنگ کی مدد سے برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا اور ڈنمارک سمیت 10 ممالک میں دریافت کیا گیا۔

اس نئی قسم کے 32 کیسز اب تک برطانیہ میں دریافت ہوچکے ہیں۔

تحقیق ٹیم نے بتایا کہ اس نئی قسم کا جینوم گشتہ سال ستمبرمیں برطانیہ کے علاقے کینٹ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 سے مماثلت رکھتا ہے اور اس میں اسپائیک پروٹین میں ہونے والی میوٹیشن ای 484 کے سمیت متعدد میوٹیشنز دیکھی گئی ہیں۔

ای 484 کے میوٹیشن جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت ہونے والی اقسام میں موجود ہے اور مانا جاتا ہے کہ اس سے وائرس کو اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ریڈنگ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سائمن کلارک نے بتایا کہ ابھی یہ تو واضح نہیں کہ متعدد میوٹیشنز سے کورونا وائرس کی بیمار کرنے کی صلاحیت پر کیا اثرات مرتب ہوئے، تاہم ای 484 کے میوٹیشن کچھ ویکسینز کے خلاف وائرس کو کسی حد تک مزاحمت کرنے میں مدد دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ابھی نہیں جانتے کہ یہ نئی قسم کس حد تک پھیل سکے گی، تاہم یہ پھیلنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ویکسین یا سابقہ بیماری سے حاصل ہونے والی مدافعت کمزور ہوسکتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے خیال میں نئی اقسام بالخصوص ای 484 کے میوٹیشن والی اقسام کے حوالے سے ٹیسٹنگ کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نئی قسم کی روک تھام کے لیے ٹیسٹنگ کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب فرانسس کریک انسٹیٹوٹ کے پروفیسر جوناتھن اسٹوی نے کہا کہ اگرچہ نئی قسم پھیل سکتی ہے، تاہم زیادہ ٹیسٹنگ کا عمل بھی آسان نہیں ، کیونکہ کووڈ کے پھیلاؤ سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار افراد ہوسکتا ہے کہ آگے نہ آئے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹیسٹ کے اخراجات برداشت نہ کرپائے۔

انہوں نے کہا کہ وہ نئی اقسام میں ملتی جلتی میوٹیشنز دیکھ کر حیران نہیں۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ ایک جیسی میوٹیشنز والی متعدد اقسام کی دریافت پریشان کن ہے کیونکہ وہ موجودہ ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں

انہوں نے کہا کہ ای 484 کے وائرس میں آنے والی اہم ترین تبدیلی ہے جس کو دیکھتے ہوئے ویکسینز کو کچھ بدلنا پڑسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں